قومی ڈائیلاگ کا وقت آن پہنچا


پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد، وزیر اعظم نے بر وقت مگر اپنی حرکات و سکنات سے سطحی قسم کا رد عمل دیا۔ ایک ایسا رد عمل جس سے وہ بذات خود ہدف تنقید بن گئے۔ ستم بالائے ستم اس کے اگلے دن کراچی کے جلسے کے بعد، مسلم لیگی رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری اور شام تک رہائی اور پھر سندھ پولیس کے اعلیٰ افسروں کی لمبی چھٹی کی درخواستوں نے ایک بحران پیدا کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے پر آرمی چیف نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے، کور کمانڈر سے رپورٹ طلب کر لی۔ جھوٹ سچ کیا ہے اس کا فیصلہ ایک دو روز میں ہو جائے گا۔ تاہم اس سارے معاملے میں متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر گئی ہے۔ موجودہ سیاسی حالات، حکومت کو بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جلد یا بدیر حکومتی بے بسی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

پی ڈی ایم جس سیاسی ہیجان کو ملک میں برپا کرنا چاہ رہی ہے، وہ ہیجان آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ پی ڈی ایم اپنے ہدف کی طرف آہستگی کے ساتھ پیش قدمی کر رہی ہے۔ ایسے میں حکومتی ٹیم میں کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جو حالات کو سمجھتے ہوئے حکومت کو محاذ آرائی سے گریز کا مشورہ دے۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ علی زیدی جیسے وزرا کی گفتگو اونٹ پر آخری تنکے کا کام کر رہی ہے۔ شیخ رشید جیسے منجھے ہوئے سیاست دان نے بھی ابتدا میں بجائے حالات کو ٹھنڈا کرنے کے ایسے بیانات دیے کہ اپوزیشن مزید متحد ہوتی گئی۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع دیا یا نادانستہ طور پر ان سے غلطی ہوئی ہے۔

سرکاری ملازمین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کا شاہراہ دستور پر احتجاج اور دھرنا، لانگ جمپ کرتی مہنگائی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے حکومتی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا عہد کرتے ہوئے وزیر اعظم نے عملی طور پر یہ کیا کہ پنجاب میں سہولت بازار لگا دیے۔ ان بازاروں سے عوام کی کتنی تعداد مستفید ہو گی اور کتنی قیمتوں میں کمی ہو گی اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اور یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا اس اقدام سے مہنگائی کا مداوا ہو سکے گا۔

اس ضمن میں عام آدمی سے رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ اس کی جو رائے ہے، وہ تحریر میں لانا مشکل ہو گا۔ اب اگر حالات کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو سرکاری ملازمین سے لے کر کاروباری طبقہ اور دیہاڑی دار مزدور، کسان تک کوئی طبقہ ایسا ہے، جو حکومتی کارکردگی سے خوش اور مطمئن ہو۔ اگر نہیں تو پھر حالات کو ٹھیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ بد ترین معاشی حالات نے، اپوزیشن کو تقریروں کے لیے بہترین مواد مہیا کر دیا ہے۔

ہر دور میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عوامی مفادات کے نام پر محاذ آرائی رہی ہے اور یہ ایک صحت مندانہ سرگرمی بھی ہوتی ہے، جس کا فائدہ عوام کو ہوتا ہے۔ تاہم اگر سیاسی حالات بگاڑ کی طرف جانے لگیں تو پھر مقتدر حلقے اور با اثر شخصیات مداخلت کر کے حالات کو معمول کی طرف لاتی ہیں۔ اور اس وقت کچھ اسی قسم کے حالات ہیں۔ مگر پریشانی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے مقتدر اداروں پر حکومت کی سر پرستی کا الزام لگا کر اس کو بھی فریق بنانا شروع کر دیا ہے۔ اگر ان الزامات میں شدت آتی گئی تو پھر کون سی ایسی تیسری قوت بچ جائے گی جو فریقین کو ایک میز پر بٹھا کر حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر سکے۔ ملک کے مقتدر اداروں کو اس انتہائی نقطے پر پہنچنے سے قبل کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ کیوں کہ ملک کے حالات مزید کسی قسم کی سیاسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

معروف سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ آرمی افسر لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی نے ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی ادارہ محترم نہیں رہ گیا۔ غلطیاں سب نے کی ہیں، مگر اب ہم دلدل میں کھڑے ہیں۔ سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا ہے، تو باہر نکل کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت اور آرمی چیف کو آگے آ کر قومی ڈائیلاگ شروع کرانے چاہیے، تا کہ اس بحرانی کیفیت سے ملک اور قوم کو نکالا جا سکے۔

لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی کی تجویز بر وقت، قابل فہم اور قابل عمل ہے۔ موجودہ حالات میں طے ہو گیا ہے کہ حکومت ملک چلانے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات مزید گمبھیر ہوتے جائیں گے۔ ایسے میں کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا تا کہ حالات کو معمول پر لایا جا سکے اور اس کے لیے صدر مملکت اور آرمی چیف کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا

جہاں تک قومی ڈائیلاگ کی بات ہے تو یہ ڈائیلاگ وسیع تر قومی مفاد اور بڑے کینوس پر ہونے چاہیں۔ ملکی سطح پر در پیش تمام تر مسائل کو سامنے رکھ کر ان کا متفق حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ تا کہ ان ڈائیلاگ کی صورت میں ایک قومی بیانیہ تشکیل پا سکے۔ قوم کو ایک سمت مل سکے اور پھر کم سے کم عوام کے در پیش مسائل کے حل کے لیے پیش قدمی کی جا سکے۔ اس وقت تک تو یہ صورت احوال ہے کہ عام آدمی مہنگائی، بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔

شدید مشکلات کا شکار ہے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ نے بھوک میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ سے زندگی ارزاں اور سستی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ قابل علاج بیماریوں کے با وجود، مہنگے علاج کے سبب مر رہے ہیں۔ امن امان کی صورت احوال بھی آئے روز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ ان حالات میں بھی اگر ملک کی سیاسی اشرافیہ اور مقتدر ادارے اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکلتے، تو پھر کب نکلیں گے۔ تب جب سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ میرا روم جل رہا ہے خدارا میرے ملک کے ارباب اختیار بے ہودہ قسم کے الزامات کی بے سری بانسری بجانا بند کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).