سعودی عرب میں ترک مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟


سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات میں سرد مہری کے باعث سعودی عرب میں ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق سعودی عرب کے کئی بڑے اسٹورز ترکی میں بنی مصنوعات مثلاً کافی، چاکلیٹس، سبزیوں کے اچار، چیز اور اس نوعیت کی دیگر اشیا ہٹا رہے ہیں۔

ترک صنعت کار اور ایکسپورٹرز یہ شکایت کر رہے ہیں کہ سعودی عرب کے کسٹم حکام اُن کے سامان کی کلیئرنس میں تاخیر کرتے ہیں جس سے عالمی سطح پر اشیا کی ترسیل میں خلل پڑ سکتا ہے۔

رواں ہفتے سعودی عرب کے چیمبر آف کامرس نے ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی جس کے بعد سعودی عرب کے بڑے اسٹورز نے اعلان کیا تھا وہ ترک مصنوعات اسٹورز سے ہٹانے کے علاوہ اب درآمد بھی نہیں کریں گے۔

‘اے ایف پی’ کے مطابق ریاض کے ایک بڑے سپر اسٹورز میں عملہ ترک مصنوعات ریکس سے ہٹاتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری طور پر ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہ مہم مقامی تاجروں اور دیگر طبقات نے اپنے طور پر چلا رکھی ہے۔

خیال رہے کہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان علاقائی سیاست پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ تاہم 2018 میں استنبول کے سفارت خانے میں مبینہ طور سعودی ایجنٹس کے ہاتھوں سعودی صحافی جمال خشوگی کے مبینہ قتل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

سعودی صحافی جمال خشوگی کے مبینہ قتل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔

لیبیا، عراق، شام اور ایران کے ساتھ تعلقات کے معاملات پر بھی دونوں ملکوں کا الگ نکتہ نظر ہے جب کہ قطر جیسے ملک، جس کی سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ملکوں نے تین سال معاشی ناطقہ بندی کی اس کے بھی ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سعودی قوم پرستوں کی جانب سے لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ ترکی میں سیاحت کے لیے نہ جائیں اور نہ ہی وہاں جائیداد خریدیں۔

خیال رہے کہ ہر سال بڑی تعداد میں سعودی سیاح ترکی جاتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی اس نئی مہم کے محرکات کا تاحال تعین نہیں ہو سکا تاہم کرونا وبا کے باعث پہلے سے دباؤ کی شکار ترک معیشت کے لیے یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ترکی کی جانب سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کو شکایت کے پیشِ نظر سعودی حکومت نے خود کو اس بائیکاٹ مہم سے الگ کر رکھا ہے۔ سعودی حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ یہ مہم عوامی سطح پر چلائی جا رہی ہے جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔

لیکن چند روز قبل ترکی کے آٹھ بڑے کاروباری گروپس کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ بہت سی سعودی کمپنیوں کو ترکی سے مال درآمد نہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

انقرہ میں ترک کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹینڈرز میں ترک کنٹریکٹرز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جب کہ ویزہ کے حصول میں بھی رکاوٹیں ڈالنے کے علاوہ ادائیگیوں میں بھی تاخیر کی جا رہی ہے۔

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ترکی کے لیے اس منفی تاثر کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں ترک کنٹریکٹرز کو ایک سال کے دوران تین ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔

ادھر سوشل میڈیا پر بھی سعودی عرب سے آپریٹ ہونے والے اکاؤنٹس سے بھی ترک مخالف ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں۔ بعض اکاؤنٹس میں کہا جا رہا ہے کہ ترک مصنوعات نہ خریدیں وہ ہمارے پیسوں سے ہمارے خلاف ہی جنگ کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa