حکمران تو دکھائی دیتے ہیں لیکن وزیر اعظم کہاں ہیں؟


اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم اب تک گوجرانوالہ اور کراچی میں کامیاب احتجاجی جلسے کر چکا ہے۔ جوں جوں اپوزیشن کی تحریک آگے بڑھ رہی ہے، کسی بڑے نقصان کا خطرہ بھی اسی رفتار سے بڑھتا جا رہا ہے۔ احتجاج اور جلسے جلوس اپوزیشن کا کام ہے، لیکن حکومتیں حواس باختہ نہیں ہوتیں، بلکہ تدبر سے نمٹا کرتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب تو خود کئی بار اپوزیشن کو احتجاج کی دعوت دے چکے ہیں لیکن ابھی محض دو ہی جلسے ہوئے ہیں کہ ملک میں انارکی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

حکومت نام کی شے ملک میں نظر نہیں آ رہی، جس طرح معاملات چل رہے ہیں، صاف محسوس ہو رہا ہے حکومت بد حواس ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں۔ ملک اس وقت جس گمبھیر صورت احوال کا شکار ہے اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، کیوں کہ معاملات بگاڑنے اور اس نہج تک پہنچانے میں بڑا کردار اس کے وزیروں اور مشیروں کا ہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد سے لے کر اب تک اپوزیشن نے کئی بار حکومت کی جانب دست تعاون بڑھایا لیکن ہمیشہ بدلے میں اسے چوروں ڈاکوؤں کی جانب سے این آر او کے حصول کی مفروضہ کوشش کے طعنے سننے کو ملے۔

گوجرانوالہ جلسے کے بعد عمران خان صاحب نے اپنی جماعت کے نو جوانوں سے جس قسم کا خطاب کیا، وہ کسی وزیر اعظم کے شایان شان ہو سکتا ہے؟ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ سمجھا جائے وقتی اشتعال میں وہ یہ حرکت کر گزرے۔ عمران خان صاحب جب بھی پارلیمنٹ تشریف لائے ان کے ارشادات وزیر اعظم تو کجا کسی مہذب شخص کے شایان شان بھی نہیں تھے۔ ان کا طرز عمل تو پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس سے سب کے سامنے ہے کیا ضرورت پڑی تھی بطور قائد ایوان اپنے پہلے ہی اجلاس میں بڑھک بازی اور اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کی؟

تسلیم کہ اپوزیشن نے بھی انہیں برانگیختہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ہماری پارلیمانی تاریخ میں اپوزیشن ہمیشہ ہنگامہ آرائی کرتی رہی ہے، حکومت وقت کا امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ اسے کس طرح حکمت سے ڈیل کرے گی۔ کیا عمران خان کو خبر نہیں کہ حکومت کی سربراہی کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ پچھلے پانچ سال میں خود ان کی جماعت نے اخلاق پامالی اور پارلیمانی روایات شکنی کی کون سی مثال تھی، جو قائم نہیں کی۔ کبھی وہ اسمبلی میں بیٹھے ہوتے تو انہیں علم ہوتا کہ طاقتور ترین مینڈیٹ کی حامل حکومتوں کے لئے بھی حزب مخالف کو سننا مجبوری ہوتی ہے۔

ایوان چلانے کے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ ان کی جماعت کے پاس تو حکومت سازی کے لئے مطلوب ارکان تک دستیاب نہیں ہیں۔ مانگے تانگے کی اکثریت بھی محض چار ارکان تک محدود ہے، اس کے باوجود پہلے دن سے وہ مخالفین کو دعوت مبارزت دیے جا رہے ہیں۔ اپنے اس طرز عمل کے باوجود اگر وہ ڈھائی سال گزار چکے ہیں تو اس کی وجہ ان کی پشت پر موجود نادیدہ ہاتھ ہیں، ورنہ 176 ارکان اسمبلی اتنی دیدہ دلیری سے محاذ آرائی کو کافی ہو سکتے تھے؟

اپوزیشن نے جب ان کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھایا تھا اور کسی بات پر نا سہی کم از کم معیشت پر ہی وہ میثاق کر لیتے۔ ہمارے ملک میں غذائی قلت کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ چالیس فی صد بچے ملک میں ایسے ہیں ناقص غذا کے سبب جن کے دماغ کی نشو و نما مکمل نہیں ہوتی۔ گاؤں، قصبوں حتی کہ شہروں تک میں کتنی مائیں ایسی ہیں زچگی کے دوران میں مناسب نگہداشت نہ ہونے کے سبب جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں پینے کو صاف پانی دستیاب ہے؟ آلودہ پانی پینے کے باعث لاکھوں لوگ ہر سال موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

تمام بڑے شہروں کے اطراف کھمبیوں کی طرح اگنے والی کچی بستیاں سماجی، اخلاقی اور امن امان میں خرابی کی آماج گاہ ہیں۔ تعلیمی میدان میں وطن عزیز کا مقابلہ تیسری دنیا کے ممالک سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ڈھائی کروڑ نونہال جن کے ہاتھوں میں قلم اور بستہ ہونا چاہیے وہ ورکشاپس اور اینٹوں کے بھٹوں میں مشقت پر مجبور ہیں۔ جن کو تعلیم کی نام نہاد سہولت میسر بھی ہے ان کے لئے بھی ملازمت کی کوئی ضمانت نہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں ملک کہ حالت پچھلے حکمرانوں کی کرپشن کا نتیجہ ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے ملک لوٹنے والے وہ چور لٹیرے حکمران جیلوں میں ہیں، تو حالات اب کیوں پہلے سے بھی ابتر ہو رہے ہیں؟

کاش خان صاحب احتساب کے نام پر اپنی انتقامی نفسیات کو تسکین دینے کی بجائے، اپنا وقت ان مسائل کے حل پر لگاتے۔ کاش ان کے وزرا اور مشیر چور ڈاکو اور پکڑو مارو کی گردان کی بجائے اپنے فرائض پر کماحقہ دھیان دیتے تو غریب عوام کی زندگی گل و گلزار نہ بھی ہوتی تو اس میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آ جاتی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے نہ خان صاحب کی سمجھ بوجھ اتنی ہے اور نا ہی ان کے ارد گرد موجود ابن الوقت اب بھی انہیں اس طرف آنے دیں گے۔

حکومت کی نا اہلی سے ہونے والی تخریب کاری معاشی میدان تک ہی محدود رہتی، پھر بھی غنیمت تھی، لمحہ فکر ہے کہ اس کی لپیٹ میں ملکی سلامتی اور ادارے بھی آ چکے ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسے جو باتیں ہوئیں، اس سے انکار نہیں کہ وہ نہیں ہونی چاہیے تھیں، لیکن سوچنا چاہیے کہ اس کی نوبت کیوں آئی؟ اس کے ذمہ دار وہی ہیں جنہوں نے ریاستی اداروں کو اپنی ڈھال بنا رکھا ہے اور خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے کی بجائے اس تنقید کا رخ اداروں کی جانب موڑ دیتے ہیں۔

پھر کراچی جلسے کے بعد جس طرح ریاستی ادارے ایک دوسرے کے سامنے آئے اور ان کے مابین بد اعتمادی پیدا ہوئی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سب تفصیلات سامنے آ چکی ہیں تصاویر اور ویڈیو موجود ہیں کہ کس طرح حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ پولیس افسران کو دھمکا کر اپنی منشا کا مقدمہ درج کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنی طرف سے جس کسی نے بھی یہ کھیل کھیلا اس کی کوشش اپوزیشن اتحاد میں دراڑ ڈالنا تھی لیکن اس حماقت سے جو بحران پیدا ہوا وہ خدانخواستہ زیادہ سنگین بھی ہو سکتا تھا۔

ہر وقت اداروں کے تقدس کا راگ الاپنے والوں کو کیا یہ اندازہ نہیں ان کی گھٹیا سیاست سے اداروں کی کتنی جگ ہنسائی ہوئی۔ تعجب ہے کہ اس قدر سنگین معاملے پر بھی وزیر اعظم کہیں نظر نہیں آئے بلکہ اس پر بھی آرمی چیف کو نوٹس لینا پڑا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کی گرفت معاملات پر نہیں اور اس کی تمام توجہ گورننس کی بجائے محاذ آرائی کی طرف ہے۔ اس میں بھی کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ یہ حکومت اب معاملات سنبھال نہیں پائے گی اور نظام اسی طرح چلتا رہا تو خرابیاں مزید بڑھیں گی۔ یہ صورت احوال خدانخواستہ ملک کے لیے کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور اس سے بچنے کا حل اس کے سوا کچھ نہیں رہا جس کا مطالبہ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).