بچے کی پیدائش! طبعی یا سیزیرین؟


نصف شب کا عالم، گہری نیند اور ہم چونک کے اٹھ بیٹھے۔ کیا کہیں گجر بجا تھا یا دور کسی قافلے کے اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں نے سر جگایا تھا!
افوہ، ہمارے فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور ہمیں ہسپتال بلایا گیا تھا۔ لیبر روم میں ایمرجنسی تھی کہ درد زہ میں مبتلا خاتون کی زچگی کے آخری مرحلے پہ بچے کو اوزار کی مدد سے پیدا کروانے کی کوشش کی گئی تھی اور بوجہ ناکامی ہوئی تھی۔ اب بچے کے دل کی دھڑکن کچھ بے ترتیب تھی سو ہمیں زحمت دی گئی تھی۔
ہم ایسے موقعوں پہ ایسے فوجی کا روپ دھار لیتے ہیں جو محاذ جنگ پہ کھڑا ہو اور کسی بھی کمک کی امید نہ ہو اور موت چند قدم ہی دور کھڑی ہو۔
فون پہ ہی ہدایت کی کہ خاتون کو آپریشن تھیٹر پہنچا دیا جائے، اور خود آندھی و طوفان کی رفتار سے دوڑے۔ معائنہ کر کے دیکھا تو بچے کا سر دو دفعہ اوزار لگنے سے سوج چکا تھا۔ سو فیصلہ کیا کہ سیزیرین کر کے بچہ نکالیں گے۔ گو کہ سیزیرین بھی ایسے مواقع پہ زچہ کے لئے کافی مشکلات کا سبب بنتا ہے لیکن بچے کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے۔
سیزرین ہوا، نوزائیدہ بچوں کے ڈاکٹر نے بچہ ہمارے ہاتھ سے لیا، آکسیجن دی اور پھر زندگی بخش دینے والی چیخ سنائی دی۔ سب کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور آپریشن تھیٹر کی فضا میں خوف، پریشانی، سنجیدگی اور ہراس کی لہروں کی جگہ طمانیت نے لے لی۔ زندگی نے موت کو شکست دے دی تھی۔
آپریشن سے فارغ ہو کر باہر آئے تو زچہ کا شوہر پریشانی اور غصے کے جذبات سے بھرا بیٹھا تھا۔ ہم نے سہج سے زچگی کے پورے عمل پہ روشنی ڈالی۔ سو نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہم رخصت ہوئے، اس کے لبوں پہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
گھر کو لوٹتے ہوئے یونہی خیال آیا کہ یہ سب سوال جو اس شوہر نے پوچھے، یہ تو ہم سے اکثر پوچھے جاتے ہیں۔ چاہے ہم محفل میں ہوں یا کلینک میں، شادی کی تقریب میں کھلکھلا رہے ہوں یا مرگ میں پرسہ دینے پہنچے ہوں، سفر میں اونگھ رہے ہوں یا دوستوں سے گپ چل رہی ہو، کوئی نہ کوئی سوالیہ نشان بن کے آن کھڑا ہوتا ہے۔
سنو، یہ کیا بات ہوئی کہ زچگی کا درد بھی برداشت کرو اور آخر میں سیزیرین ہو جائے ؟
آخر آج کل اتنے سیزیرین کیوں ہوتے ہیں، پچھلے زمانوں میں تو ایسا نہیں تھا؟
کتنے سیزیرین صحیح وجہ سے کیے جاتے ہیں اور کتنوں میں ڈنڈی ماری جاتی ہے ؟
ڈاکٹر کے مالی فائدے کا کتنا حصہ ہے ان سیزیرین زچگی میں ؟
زچگی کے درد سے پہلے ہی سیزیرین کیوں ہوتا ہے ؟
ہمیں گائناکالوجسٹ نو ماہ بتاتی رہیں کہ سب ٹھیک ہے، عین وقت پہ سیزرین کا کہہ دیا ؟
کتنے سیزیرین ہونا ممکن ہیں؟
ہم ان تمام سوالات کے جواب دینے سے پہلے کچھ بنیادی باتیں حمل اور زچگی کے بارے میں بتانا چاہیں گے کہ یہ ہر کسی کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔
زچگی ایک پل صراط!
جب عورت موت کی سر حد پہ جا کے کھڑی ہو جاتی ہے اور قدم قدم پہ زندگی کا اپنے ہاتھ سے پھسلتا ہوا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتی ہے !
انسانی حمل کی مدت دو سو اسی دن، یا چالیس ہفتے، یا نو ماہ اور سات دن گنی جاتی ہے۔ حمل جب سینتیس ہفتوں کو پہنچ جائے تو بچہ چھوٹا نہیں سمجھا جاتا اسی طرح حمل کی مدت بیالیس ہفتوں سے اوپر نہیں جانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ کہ بچہ لازماً سینتیس سے بیالیس ہفتوں کے درمیان پیدا ہونا چاہئے۔
زچگی شروع ہونے کی علامات میں بچے کی پانی کی تھیلی پھٹنا، ہلکا درد شروع ہونا اور خون کے داغ لگنا ہیں۔ پہلے بچے کی دفعہ درد زہ کی مدت بارہ گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور دوسرے تیسرے چوتھے بچوں میں یہ مدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
آپ نے اکثر ڈاکٹروں کے منہ سے سنا ہو گا، ابھی درد اچھے نہیں ہیں۔ اچھے درد سے مراد طاقتور درد جن کی مدت پینتالیس سیکنڈ سے ایک منٹ تک ہو، پھر کچھ وقفہ آئے اور پھر اگلا درد شروع ہو۔ دس منٹ میں کل تین سے چار طاقتور درد ہونے چاہیں۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو بچے کے دماغ اور دل کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔
ہر درد کے دوران رحم سکڑتا اور بچے کو نیچے کی طرف دھکیلتا ہے تاکہ وہ دنیا میں تشریف لا سکے۔ اس سکڑنے اور دھکیلنے کے عمل میں بچے کو آنول کے ذریعے ماں سے پہنچنے والی آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ وقفہ صرف ایک منٹ تک ہوتا ہے اس لئے جب درد ختم ہوتا ہے تب بچے کو دوبارہ آکسیجن پہنچنا شروع ہو جاتی ہے جب تک اگلا درد نہ آ جائے۔
بچے کو آکسیجن پہنچنے کے مراحل کا حساب بچے کے دل کی دھڑکن کے ریکارڈ سے رکھا جاتا ہے۔یہ عمل کارڈیو ٹوکو گرافی ( Cardio toco graphy) یا CTG کہلاتا ہے۔ یہ مشین 1969 میں مارکیٹ میں آئی اور اس نے زچگی کی سائنس میں انقلاب برپا کر دیا۔
‏CTG بچے کے دل کی دھڑکن ایک الیکٹروڈ کے ذریعے ریکارڈ کر کے ایک گراف بناتی ہے۔ الیکٹروڈ بیلٹ کے ذریعے زچہ کے پیٹ پہ باندھا جاتا ہے۔ گراف کو دیکھ کے نتیجہ اخذ کرنے کی مہارت ہر سپیشلائزیشن کے امتحان کا لازمی جزو ہے۔ زچگی کے عمل کے دوران کبھی بھی اگر CTG کا گراف نارمل حد سے نکل کے بگڑ جائے تو لا محالہ آدھ گھنٹے کی مدت تک بچہ پیدا کروانا لازمی ہے۔ ورنہ بچے کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں دماغی طور پہ ابنارمل بچہ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
رحم سے بچہ اس وقت تک باہر نکل نہیں سکتا جب تک رحم کا منہ دس سینٹی میٹر یعنی چار انچ تک نہ کھل جائے۔ درمیانے سائز کے بچے کے سر کا ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک کا سائز ساڑھے نو سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ اگر CTG بگڑ چکی ہے اور رحم کا منہ ابھی دس سینٹی میٹر سے کم کھلا ہے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ سیزیرین کر کے بچے کو باہر نکالا جائے۔

انگلینڈ کی شہزادی شارلٹ (1817-1796)، بادشاہ جارج چہارم کی اکلوتی لاڈلی بیٹی، بیلجئم کے ہونے والے بادشاہ کی بیوی، نے اکیس سال کی عمر میں بچہ جنم دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دی۔ شہزادی شارلٹ نے پچاس گھنٹے درد زہ میں گزارے مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد رحم سے اس قدر خون کا اخراج (post-partum hemorrhage) ہوا کہ بادشاہت اور بے اندازہ دولت سے بھی موت کا راستہ روکا نہ جا سکا۔

دوسری کہانی کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے !
اس میں بھی ایک بادشاہ ہے لیکن ساتھ میں شہزادی کی بجائے ملکہ ہے، محبوب بیوی ! بادشاہ کے چودہ بچوں کی ماں اور ازدواجی زندگی محض انیس برس!
ممتاز محل (1631-1593) چودھویں بچے کی پیدائش میں تیس گھنٹے کی درد زہ برداشت کرنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئی۔ متاز محل کی موت کا سبب بھی زچگی کے بعد خون کا بہنا ( post-partum hemorrhage ) تھا جو قابو میں نہ آسکا۔
شاہ جہاں نے جوگ لے لیا ایک سال بعد جب وہ سامنے آیا تو کمر خمیدہ تھی اور بال سفید! اپنی محبت امر کرنے کا خیال آیا اور تاج محل مجسم ہوا اور وہ خوبصورت عمارت آج بھی اس دیوانگی پہ مسکراتی ہے۔
بادشاہ کو ملکہ سے محبت تو یقیناً تھی لیکن کیا کیجیے کہ مانع حمل ادویات وجود میں نہیں آئیں تھیں۔ ویسے آج جب بے شمار مانع حمل طریقے موجود ہیں، تب بھی بے شمار عورتیں زچگی میں موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ ملائیت کبھی اس بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتی، سو ہر موت اللہ کی رضا کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔
ارے، ہم بھی موضوع سے فوراً ہی بھٹک جاتے ہیں، برا ہو ہمارے نسائی درد دل کا!


اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ زچگی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے اور اس میں کہیں بھی کوئی رخنہ آ جائے تو ماں اور بچے کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔کسی بھی اچھے گائناکالوجسٹ کو اس سب سائنس کا علم حاصل کرنا لازم ہے جو obstetrics کہلاتی ہے۔
زمانہ قدیم میں آبسٹیٹرکس دو نظریات پہ مبنی تھی، intervention اور non-intervention۔
زیادہ تر ڈاکٹر دوسرے نظریے پہ یقین رکھتے ہوئے زچگی کے عمل میں اوزار لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن کچھ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ سب خواتین میں زچگی آسان نہیں ہوا کرتی سو اوزاروں کا استعمال لازمی ہے۔ شہزادی شارلٹ کی المناک موت کے بعد زچگی میں فورسیپس (Forceps) کا استعمال شروع ہوا۔ فورسیپس چمچ کی طرح کے اوزار ہوتے ہیں جو بچے کے سر کے گرد لگا کر اسے کھینچا جاتا ہے۔
سیزیرین کا آغاز بھی مغربی دنیا میں انیسویں صدی میں ہوا اگر چہ تاریخی طور پہ دعویٰ یہ ہے کہ جولیس سیزر کی ولادت اس طریقے سے ہوئی تھی اسی لئے یہ سیزیرین کہلایا۔ نہیں معلوم سیزر کی والدہ ان کی پیدائش کے بعد بچ گئیں کہ چل بسیں کہ اس زمانے کے جراحوں کے بارے میں ہمارا علم محدود ہے۔
اگر CTG ٹھیک رہے تب رحم کا منہ دس سینٹی میٹر تک کھل جانے کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ انتظار بھی معین مدت سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ رحم بھی کھل جائے، بچے کا سر بھی نیچے آ جائے، دو سے تین گھنٹے گزر جائیں اور تب بھی زچگی نہ ہو تو پھر فیصلہ سیزیرین یا اوزار کا کیا جاتا ہے۔ تین گھنٹے سے زیادہ انتظار ماں اور بچے دونوں کی زندگی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اوزار لگانا ہیں یا سیزیرین کرنا ہے اس کا فیصلہ گائنالوجسٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ مختلف پوائنٹس پہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس عمل میں خطرہ کم سے کم ہو گا۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈرائیور سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کے فیصلہ کرے کہ اوورٹیک کرنا محفوظ ہے یا نہیں۔ لینڈنگ کرتے ہوئے جہاز کے پائلٹ کی مثال بھی منطبق ہوتی ہے۔ ناتجربہ کاری سے جس طرح ڈرائیور اپنی گاڑی کے اور پائلٹ اپنے جہاز کے مسافروں کی جان خطرے میں ڈالتا ہے، ویسے ہی زچہ و بچہ بھی متعلقہ عملے کی وجہ سے زندگی اور موت کی سرحد پہ جا کھڑے ہوتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں زچگی کے معیارات کو زچہ اور بچہ کی موت کی شرح سے جانچا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تعریف کے مطابق میٹرنل مورٹیلیٹی ریٹ (maternal mortality rate) کل ایک لاکھ زچہ خواتین میں ملک عدم سدھار جانے والی خواتین کی تعداد ہے۔
بہترین ممالک، جن میں زچہ کی موت کم سے کم ہوتی ہے، کی صف میں اٹلی پولینڈ اور ناروے سر فہرست ہیں جہاں ایک لاکھ زچہ میں سے صرف دو موت کو گلے لگاتی ہیں۔ یونائیٹڈ عرب امارات، فن لینڈ، اسرائیل میں تین، جاپان، ہالینڈ آسٹریا میں پانچ، انگلینڈ، جرمنی میں سات، فرانس، سنگاپور میں آٹھ، قطر اور نیوزی لینڈ میں نو، کینیڈا میں دس، سعودی عرب میں سترہ، عمان اور امریکہ میں انیس خواتین بد قسمت ٹھہرتی ہیں۔
پاکستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یہ شرح ایک سو چالیس جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق تین سو پچاس ہے جو کہ دیہی علاقوں میں زچگی کی سہولیات عنقا ہونے اور ڈیٹا اکھٹا کرنے میں بے شمار مشکلات کی وجہ سے حقیقت کے قریب نظر آتی ہے۔
ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے، ہر لاکھ زچہ میں سے ساڑھے تین سو عورتیں اکیسویں صدی میں ایٹمی اثاثوں کے مالک وطن میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ وجوہات میں دور دراز علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں کی غیر موجودگی، بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم کا فقدان اور آگہی کی کمی ہیں۔

ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ ڈاکٹر ان علاقوں میں نہیں جاتے! ڈاکٹر بےچارے بھی کیا کریں، جن علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات ڈاکٹر کو فراہم کرنے میں محکمہ صحت نابینا بن جاتا ہو، وہاں ڈاکٹر سے یہ توقع رکھنا کہ زندگی تیاگ کے جوگی بن جائے دیوانے کی بڑ ہی تو ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ان علاقوں میں صرف اسسٹنٹ کمشنر اور فوجی کپتان یا میجر کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
دیکھیے ہم پھر بھٹک گئے، اصل میں کہنے کو ہی اتنا کچھ ہے کہ بات ادھر سے ادھر نکل جاتی ہے۔ سمیٹنے سے پہلے اس بات کا جواب ضرور لکھنا چاہیں گے کہ لیڈی ڈاکٹر کا مالی مفاد کس حد تک سیزیرین کے فیصلے پہ اثر انداز ہوتا ہے۔
دیکھیے، ایک بات سمجھ لیجیے کہ جب کسی معاشرے میں کوئی ناسور پکتا ہے وہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں رہتا۔ راتوں رات امیر بننے کی دوڑ اور اخلاقی قدروں کے زوال نے اس شعبے میں بھی کالی بھیڑیں پیدا کی ہیں جن کا ماوا و ملجا دولت ہے۔ ویسے حیرت کاہے کی؟ کون ہے جو اس حمام میں ننگا نہیں؟
سرکاری ہسپتالوں میں ازدحام، سہولیات کی کمی، کھمبیوں کی طرح اگے پرائیویٹ میڈیکل سینٹر اور ان میں بیٹھا اناڑی عملہ ایک اور بڑی وجہ ہے۔ سوچیئے ذرا کونسی تجربہ کار اور سینیئر گائناکالوجسٹ ہوں گی جو دس سے بارہ گھنٹوں کے لئے زچہ کے سرہانے بیٹھ سکیں؟
زچہ کو ایک ایسی نرس یا جونئیر لیڈی ڈاکٹر کے حوالے کرنا جو وقت پہ CTG ہی نہ پڑھ سکے، اس مشکل وقت کو بھانپ نہ سکے جب موت دبے پاؤں قریب آ رہی ہو، ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے ہمارا ضمیر کبھی راضی نہیں ہوا۔
اسی لئے ہم اپنی پرائیویٹ پریکٹس میں پہلی ملاقات میں ہی خاتون کو بتا دیتے ہیں کہ اگر انہیں طبعی زچگی پر اصرار ہے تو کسی اور گائناکالوجسٹ سے رجوع کریں۔ ہم ایک نرس یا جونئیر لیڈی ڈاکٹر کے بل پر یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا سکتے۔
پاکستان میں سینیئر گائنالوجسٹس نے شاید اس کا حل درد زہ سے پہلے ہی سیزیرین کرنے کی صورت میں نکالا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ گلی گلی کھلے میڈیکل سینٹرز نے بھی اٹھایا ہے کہ سیزیرین میں مالی منافع کافی زیادہ ہے۔
لیجیے آدھی رات کا گجر تھا یا پھر اونٹوں کے گلے میں لٹکی گھنٹیوں کے مدھر سر تھے یا ہمارے فون کی آواز تھی، ہمیں کیا کیا نہ سجھا گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).