لاہور کا پانچواں موسم


یوسفی صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ ”کیلنڈر سے اپریل، مئی، جون، جولائی اور اگست کے مہینے ہمیشہ کے لیے نکال دیے جائیں تو واللہ لاہور کا جواب نہیں!“ گزشتہ چند برسوں میں موسم کے جیسے حالات چل رہے ہیں، لگتا ہے کہ اکتوبر، نومبر، دسمبر، جنوری، اور فروری کو بھی نکالے بنا بات نہیں بنے گی۔ وجہ وہ پانچواں موسم ہے جس کا زندہ دلان لاہور کو چند سال سے سامنا ہے۔ اس رت میں سموگ کی صورت میں دھواں اور گرد وغبار لاہور کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھتے ہیں۔ اور دھند کا یہ عالم کہ بینائی کی حد بھی چند فٹ تک محدود رہ جاتی ہے۔ شاعر حضرات تو ایسے موسم کو رومانوی پہلو سے دیکھتے ہیں :

وہ مجھ کو دیکھنے میرے قریب آیا ہے

یہ دھند سارے مہینوں میں کیوں نہیں پڑتی (حارث بلال)

تاہم اس دھند کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ٹریفک کے حادثات معمول سے بڑھ کر انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔

سموگ دراصل دھویں، پانی اور کچھ خطرناک گیسوں (کاربن، نائڑوجن کے آکسائیڈز) کا مجموعہ ہے۔ اس کا مرکزی جزو ذراتی مادے (پی۔ ایم) ہیں جنہیں حجم کی بنیاد پردو گروہوں میں بانٹا گیا ہے۔ دس اور دو اعشاریہ پانچ مائیکرون قطر رکھنے والے ذراتی مادے پی۔ ایم۔ 10 اور پی۔ ایم۔ 2.5 کہلاتے ہیں (ایک انسانی بال تقریباً 70 مائیکرون ہوتا ہے یعنی اس کے قطر میں اٹھائیس پی۔ ایم 2.5 ذرات سما سکتے ہیں ) ۔ آخر الذکر قابل تنفس ہونے کی وجہ سے دل اور سانس کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے کینسر اور دمہ کی وجہ بنتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی ہر سال سات ملین افراد کی جان لیتی ہے جن میں سے 4.2 ملین افراد صرف بیرون خانہ آلودگی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر دس میں سے نواں آدمی ایسی فضا میں سانس لیتا ہے جس میں آلودگی کی مقدار ادارے کی مجوزہ بالائی مقدار سے زیادہ ہے۔ فضائی آلودگی یوں یو ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے مگر کم یا درمیانی آمدن والے ممالک فضائی آلودگی سے زیادہ متاثر ہیں۔ شہروں کو ایک عفریت کی طرح لپیٹ میں لینے والا سموگ ہو یا اندرون خانہ دھواں، فضائی آلودگی صحت اور ماحول دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اندرون اور بیرون خانہ فضائی آلودگی ہر سال تقریباً سات ملین بچوں کی قبل از پیدائش وفات کا سبب بنتی ہے چونکہ اس کی وجہ سے اسٹروک، سانس، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

سموگ کا موسم لاہور میں اکتوبر میں شروع ہو جاتا ہے اور اس میں شد ت اس وقت آتی ہے جب پاکستانی اور ہندوستانی پنجاب میں دھان کی فصل کی باقیات کو آگ لگا کر تلف کیا جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے سیٹلائیٹ (ٹیرا اور ایکوا) آلات سے جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر 14 سے فصلوں کو لگنے والی آگ میں شدت آ رہی ہے۔ کم درجہ حرارت اور بند ہوا، یوں بننے والے دھویں کو ایک چادر کی طرح پنچاب (اورہریانہ) کے اوپر تانے رکھتے ہیں اور یوں شدید فضائی آلودگی کی وجہ بنتے ہیں۔ تاہم ہوا کے معیار کا قابل اعتبار ڈیٹا بتا تا ہے کہ لاہور کی ہوا سارا سال ہی آلودہ اور بین الاقوامی معیار کے مطابق صحت کے لیے نقصان دہ رہتی ہے۔

پی۔ ایم 2.5 کی مقدار کی بنیاد پر ہوا کے معیار بنائے گئے ہیں جنہیں ائر کوالٹی اینڈیکس (AQI) کہا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی میں 0 سے 50 تک کی قیمت اچھی (ہرا رنگ) ، 51۔ 100 تک معمولی (پیلا رنگ) ، 101 سے 150 تک حساس لوگوں کے لیے غیر صحت مند (نارنجی رنگ) ، 151 سے 200 تک غیر صحت بخش (سرخ رنگ) ، 201 سے 300 بہت ہی غیر صحت بخش (بنفشی رنگ) اور 301 سے 500 تک خطرناک (مہرون رنگ) ہوا کو ظاہر کرتے ہیں۔ امریکی قونصلیٹ کے آلات سے لیے گئے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ دو دنوں میں ہوا کا معیار سرخ سے غیر صحت مند سے خطرناک (سرخ اور مہرون رنگ کے لیبل) رہا ہے۔

صوبائی اور وفاقی ماحولیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ کچھ نجی ادارے (پاکی) بھی ہوا میں پی۔ ایم کی مقدار کو جانچ کر عوام کی معلومات کے لیے انٹرنیٹ یا موبائل ایپس کی صورت میں مہیا کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی بھی ہوا میں موجود ذراتی مادوں اور گیسوں کی جانچ پڑتال کے آلات نا کافی ہیں۔ اس کی ایک وجہ فضائی آلودگی جانچنے اور ماپنے کے آلات کا مہنگا ہونا بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے آلودگی ماپنے والے کم قیمت آلات بنائے اور خریدے جا سکیں جن سے آلودگی کی مقدار کی درست تشخیص ممکن بنائی جا سکے۔ یوں حاصل ہونے والا ڈیٹا کی روشنی میں حکومت، پالیسی اور قانون ساز ادارے آلودگی سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تیار کر سکیں۔

امریکی قونصلیٹ (کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور) ٹویٹر کے ذریعے ہر گھنٹے بعد پی۔ ایم 2.5 کی مقدار بتاتے ہیں۔ آپ AirNow کی ویب سائٹ سے ان کی موبائل ایپ بھی ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ AirVisual موبائل ایپ سے بھی آپ فضائی آلودگی کی شدت جان سکتے ہیں۔ بیرون خانہ سرگرمیاں کرنے سے پہلے ان ایپس کی مدد سے AQI اور سفارشات دیکھ لیں۔ کھلی فضا میں جسمانی مشقت سے گریز بہتر ہے۔ بزرگوں اور بچوں کو زیادہ تر گھر میں رکھیں۔ باہر نکلنا نا گزیر ہو تو اپنی سرگرمیاں مختصر رکھیں اور N 95 طرز کے ماسک پہنے رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).