واحد بلوچ، نسیم حجازی کے گھوڑے اور لکھنے کا حلف نامہ


\"zafarullah-khan-3\"جبر کی بھی کیا کیا صورتیں ہیں۔ کتنی بار اپنا گلہ گھونٹنا پڑتا ہے۔واحد بلوچ کی رہائی پر عرض کیا تھا کہ واحد بلوچ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم کنہیاکمار میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے پورا ہندوستان جانتا تھا کہ کنہیا کمار کو کس نے اٹھایا۔ پورا ہندوستان واقف تھا کہ کنہیا کمار کس جیل میں ہے۔ مملکت خدادا پاکستان میں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم واقف نہیں ہوتے کہ ہمارے بھائی کون اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کس جرم کی پاداش میں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ جبر طاقتورہوتا ہے۔ طاقت اپنی اظہار چاہتا ہے۔ مگرجیت ہمیشہ طاقت کی نہیں ہوتی۔

یہ ایک تاثر تھا جس کو الفاظ کی شکل دے کر اپنی فیس بک کی دیوار پر چپکا دیا۔اس پر ردعمل ویسا ہی آیا ہے جس کی توقع تھی۔کسی کا خیال تھا کہ میں ملک سے باہر بیٹھ کر ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ بیانیے پر داد شجاعت وصول کر رہا ہوں۔کسی کو محسوس ہوا کہ میں’Playing Victim‘ کے کردار میں مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر دراصل خیالی سیکولر ’ ہندوستان کے مکروہ چہرے ‘پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔کسی نے عرض تمنا کی کہ یہ تو بات اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے مگر کیا میں کبھی گلگت، بلتستان کے بارے میں بھی لکھوں گا۔عمومی طور پر ایسی باتوں پر وہ تبصرہ نگار بھی آتے رہتے ہیں جو طے کیے بیٹھے ہیں کہ چونکہ میں بلوچستان سے ہوں اس لئے سچ اور جھوٹ کی تمیز کئے بغیر’ چار غدار سرداروں‘ کا ہی بیانیہ آگے بڑھاتا ہوں ۔ اس سے \"wahidبالکل پرے کبھی کبھی بلوچستان کے وہ دوست بھی سامنے آکر مجھے یاد دہانی کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ میں چونکہ بلوچستان کے ’ جبری الحاق‘ کو بھلا چکا ہوں اور ان کی ’ تحریک آزادی‘ پر یقین نہیں رکھتا اس لئے لازمی طور پر میں اسٹیبلشمنٹ کا گماشتہ ہوں اور ان کے مقدمے کو خراب کر رہا ہوں۔ یا پھر وہ تبصرہ نگار آتے ہیں جو طے کر چکے ہیں کہ چونکہ میں ایک ’ سیکولر بیانیے‘ کا حامی ہوں اس لئے میں وہی لکھوں گا جو کم ازکم ایک ’ اسلامی نظام‘ کے قیام کے حق میں تو نہیں ہو سکتا۔ بیچ بیچ میںان لوگوں کی آواز بھی آتی رہتی ہے جو اپنے کلام کو آفاقی کلام سمجھتے ہیں اور میری ہر بات سے یہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں کیسا مسلمان ہوں یا پھر میں مسلمان رہا بھی یا نہیں رہا۔ اس ضمن میںدیسی لبڑل، غدار، اسٹیبلشمنٹ کا گماشتہ، مغرب کا پروردہ، مادر پدر آزادی کا خوگر یا پھر حرامی جیسی اصطلاحات کا استعمال ہونا معمول کی بات ہے۔

بات اگر میری ذات کی وضاحت کی ہوتی تو مجھے کبھی یہ مضمون لکھنے کی نوبت پیش نہیں آتی۔ میں ذاتی طور اس دباﺅ سے تو کم ازکم نکل چکا ہوں جہاں مجھے سماج میں رہنے والے اپنے جیسے ایک دوسرے فرد کو میرے قائم کردہ نظریات کی وضاحت دینے کی ضرورت پیش آئے۔ اس کے علاوہ بطور انسان عزت و شہرت کی جبلی خواہشات کے ہوتے ہوئے بھی میں سمجھتا ہوں کہ اخبار کا صفحہ اپنی ذات کی تشہیر کرنے کی بجائے قاری کی امانت ہے۔میں اس مقام پر بھی کھڑا نہیں ہوں کہ اپنی کج مج بیانی کو حتمی تصور کر کے دوسروں کی رائے غلط سمجھتا رہوں۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہر پڑھنے یا لکھنے والے کا ایک مخصوص ذاتی تناظر ہوتا ہے جو اس کے مشاہدے ، مطالعے اور سماج کے عمومی رویوں سے تشکیل پاتا ہے۔ اس کے باوجود میں سچائی پر کسی ایک\"mama-jamal-wahid\" شخص یا کسی مخصوص گروہ کا قبضہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں۔میںکسی شخص، کسی کتاب، کسی فکر، کسی نظریئے، کسی سماجی رویے کے بارے میں حتمیت کا قائل نہیں ہوں ۔فرد کی تعمیر جہاں سماج کے مجموعی تناظر کو دیکھنا پڑتا ہے وہاں انہی افراد کے مجموعے سے قائم ہونے سماج کے فکری اپچ اور نظریاتی تعمیر کو بھی مدنظر رکھنا لازم ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بھی چیز پر رائے ہاں یا نہیں، درست یا غلط، سچ یا جھوٹ کی حتمیت کے ساتھ قائم نہیں کرنی چاہیے بلکہ ’ گرے ایریاز‘ کو مدنظر رکھنا لازم ہے۔بدقسمتی سے مگر ایسا نہیں ہے۔

ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جس کے باسی بضد ہیں کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک میں رہتے ہیں۔ سماج کا عمومی بیانیہ یہی ہے کہ ہمارا سماج دراصل ایک مذہبی سماج ہے۔اگر میں درست سمجھا ہوں تو ایک مذہبی سماج ہونے کا دعوی یا ایک مذہبی سماج قائم کرنے کی کوشش دراصل ایک صالح معاشرے کا دعوی یا صالح معاشرے کے قیام کی کوشش ہے۔اس سماج میں اچھے اقدار کا ایک بیانیہ موجود ہے جن کو ’مشرقی اقدار‘ کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس آزاد و خود مختار، صالح اور مشرقی روایات سے مزین سماج میں کیا کسی شخص کو آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے اپنی بات کہنے اور لکھنے کی اجازت حاصل ہے؟ عمومی طور پر تو جواب ہاں میں ہونا چاہیے مگر سماج کے جبری رویے اس کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔

\"wahid-baloch-2b\"سماج کے رویے ایک فرد پر کیسے جبر کرتے ہیں یہ ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف تفہیم کے لئے اپنی مثال رکھتا ہوں جبکہ میرے بجائے اپنے پس منظر میں یہ کوئی بھی دوسرا شخص ہو سکتا ہے جو مذہبی، غیر مذہبی، کسی مخصوص زبان یا علاقے، یا کسی مخصوص فکر و نظریئے کا حامل ہو سکتا ہے۔میں بطور فرد ایک مسلمان ہوں۔ میں پاکستان کا ایک شہری ہوں۔میری پیدائش بلوچستان میں ہوئی ہے۔میری مادری زبان پشتو ہے۔ میری پہچان کے بنیادی حوالے یہی ہیں۔پڑھنے سے شغف رکھنے کی وجہ سے لکھنے یا بولنے کی کج مج بیانی کر لیتا ہوں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ بولنے یا لکھنے سے پہلے کیا مجھے دو ،چار یا چھ حلف نامے لکھنے چاہیں تاکہ میں دیسی لبڑل، غدار، اسٹیبلشمنٹ کا گماشتہ، مغرب کا پروردہ، مادر پدر آزادی کا خوگر یا پھر حرامی یا کافر کے فتوے سے بچ سکوں؟ بات اگر ایک دو حلف ناموں کی ہوتی تو میں خود پر جبر کر کے لکھ بھی دیتا لیکن یہ بات بہت آگے تک جاتی ہے۔

میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ کسی فرد سے اس کے عقیدے کی گواہی طلب کرنا سماج کے کسی دوسرے فرد کا حق نہیں۔ عقیدہ ان خیالات پر مشتمل ہوتا ہے جس کی سچائی یا تردید کی معروضی تصدیق ممکن نہیں ہوتی چونکہ زبانی تصدیق کے ساتھ اس میں باطنی عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔ مگرچونکہ ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں بطور مسلمان مذہب ترک کرنا ارتداد کہلاتا ہے۔ اس لئے میں یہ حلف اٹھا لیتا ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوں۔مگر یہ حلف کافی نہیں ہے۔ مجھ سے سماج کی مختلف جبری طاقتیں کچھ اور بھی سوال پوچھتی ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا میں شیعہ ہوں یا سنی؟ کیا میں ماتریدی ہوں یا اشعری؟ کیا میں مقلد ہوں یا غیر مقلد؟ کیا میں حنفی ہوں، شافعی ہوں، مالکی ہوں یا حنبلی؟ کیا میں دیوبندی ہوں یا بریلوی؟ کیا میں حیاتی ہو ں یا مماتی؟ سماج اگر میرے صرف مسلمان ہونے کے حلف سے قائل ہوتا تو میں یہ حلف تو اٹھا چکا ہوں۔

میں بطور فرد یہ سمجھتا ہوں کہ ریاست کو چلانے کے لئے سیکولرازم ایک بہتر ریاستی بندوبست ہے۔ سیکولرازم ایک خالص سیاسی طرز \"wahid-baloch-5\"فکر کا نام ہے جو ایک طے شدہ جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام انسانوں کے بلا امتیاز بہبود، تحفظ اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ کیا ہر بار جب میں سیکولرازم کا لفظ لکھوں تو اس کے ساتھ مجھے اس کی بنیادی تعریف بھی لکھنی پڑے گی اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا پڑے گا کہ سیکولر ازم کسی مذہبی عقیدے کے اثبات یا ابطال سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔کیا مجھے ہر بار لکھنا چاہیے کہ ایک سیکولر نظام کا حامی شخص بیک وقت سیکولر اور مسلمان ہو سکتا ہے۔کیا مجھے یہ لکھنا پڑے گا کہ سیکولرازم جمہوری بھی ہو سکتا ہے اور غیر جمہوری بھی؟ کیا مجھے ہر بار یہ بتانا پڑے گا کہ سیکولرازم کا کوئی کعبہ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ملک چاہے وہ امریکہ ہو یا بھارت، اگر وہ سیکولرازم کے نام پر جبر روا رکھتا ہے تو اس سے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں بدل نہیں جاتے۔

میں بطور فرد جب لبرل ازم کی بات کرتا ہوں تو کیا مجھے ہر بار یہ بتانا پڑے گا کہ لبرل ازم مادر پدر آزادی کا نام نہیں بلکہ سماج کے سیاسی، معاشی اور سماجی تصورات کو انصاف، مساوات اور شخصی آزادی پر قائم کرنے کو لبرل ازم کہتے ہیں۔اور یہ کہ میں ایک ایسے سماج میں رہتا ہوں جہاں کچھ معاشرتی حدود و قیود قائم ہیں جس کو میں قبول کرتا ہوں۔ اس لئے میں ایک قدامت پسند دیسی لبرل ہوں جو شخصی آزادی کے ان معیارات کو قبول نہیں کرتا جو امریکہ یا یورپ میں قائم ہیں۔

میں پاکستان کا ایک شہری ہوں۔ میں اس کے آئین و قانون کا پابند ہوں۔ اس سے ماورا کیا مجھے کسی ادارے سے حب الوطنی کا حلف اٹھانا چاہیے؟ کیا اس ملک کا شہری ہوتے ہوئے میں کسی ادارے کی غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کی مخالفت نہیں کر سکتا؟ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو مجھ پر غداری کے فتوے لگیں گے۔ کیا کسی بھی ادارے سے یہ پوچھنا میرا حق نہیں ہے کہ اس کو آئین معطل کرنے کا حق کس نے دیا؟ کیا مجھے ہر بار لکھنا پڑے گا کہ فوج کے ادارے سے میرا کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے مگر اس ادارے کی جانب بار بار آئین کی معطلی کے میں خلاف ہوں۔ کیا مجھے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ میں اس ملک کے افغان پالیسی یا شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرنے والی پالیسی کے خلاف ہوں؟ کیا مجھے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ اس ملک کے کسی بھی ادارے کو شک یا غداری کے شبہ میںماورائے قانون اپنے شہریوں کو اٹھانے یا گم شدہ کرنے کا حق حاصل نہیں۔ کیا ایسا پوچھنے پر میں غدار قرار دیا جاﺅں گا؟ آپ یقیناَ نہیں میں جواب دیں گے لیکن میں انہی سوالات پر غداری کے فتوے سن چکا ہوں۔

\"wahid-baloch\"کیا بلوچستان کا باشندہ ہونے کے لئے میں ہر بار بلوچستان کے بھائیوں کو الگ یہ گواہی دوں گا کہ میںریاستی جبر اور استحصال پر آپ کے ساتھ کھڑا ہوں مگر میں کسی نئی سرحد بندی کا قائل نہیں ہوں۔ اور اس نئی سرحد بندی کا قائل نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے اپنا ضمیر کسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ یا پھر میں لاہور یا اسلام آباد میں ریاست کے مخصوص ’ یوٹوپیائی حب الوطنی‘ کے علمبرداروں کو یہ یقین دلاتا پھروں کہ ریاستی جبر اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانا غداری نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی جبر اور استحصال کو چار غدار سرداروں کا نام دے کر مزید جبر روا رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

میرا پشتون ہونا میری پیدائش کا اتفاق ہے۔ جیسے یہ پہچان کسی شرمندگی کا باعث نہیں ، بالکل اسی طرح یہ کسی افتخار کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ کیا مجھے ہر بار اپنے نیشلسٹ بھائیوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ جبر کی شناخت لسانی نہیں ہو سکتی۔ کیا مجھے ہر بار ان کو یہ بتانا پڑے گا کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ جیسی قبیح اصطلاح استعمال نہ کیا کریں۔ اور اگر میں ’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘ کی بجائے صرف اسٹیبلشمنٹ لکھتا ہوں تو اس سے میرا پشتون ہونا مشکوک نہیں ٹھہرتا۔ دوسری طرف مجھے سرکاری دانش کدوں کی ٹھنڈک میں بیٹھے دانشوروں کو کتنی بار بتانا پڑے گا کہ حب الوطنی اور غداری کے پیمانے آپ کتنی بار بھی بدل لیں۔ لاکھ قواعد اور ضوابط پر حلف دلوا لیں مگر باچا خان سے محبت کرنا ہماری فینٹسی ہے۔

میں روز بولنے یا لکھنے سے پہلے ایسے کتنے حلف نامے لکھا کروں؟ اصل بات شاید بہت آسان ہے۔ ہم ایک سماج میں رہتے ہیں جہاں کسی کی بات سننے یا سمجھنے سے پہلے اپنے طے شدہ معیارات پر پرکھنا اور ردعمل دینا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس سماجی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں کم سے کم ترین درجے میں بھی ایک ایسے سماجی سمجھوتے پر تو عمل کرنا ہو گا کہ قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے سماج کا کوئی بھی فرد کسی دوسرے فرد پر بالادست نہیں۔ اپنے اپنے فکری دائروں میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے مکالمہ تو کر سکتے ہیں مگر ہمیں ایک دوسرے کو خیالات اور نظام فکر کی بنیاد پر باطل، غلط، کم تر اور تضحیک کا حق نہیں پہنچتا۔ سماج ایک دن میں یا ایک گروہ کی خواہش پر نہیں بدلتا ۔ سماج میں بسنے والے اپنے عمل میں سیکولر، لبرل، جمہوری، مذہبی یا جو بھی ہوں ، سماج کے پیمانے خود بخود اسی طرز پر ڈھل جائیں گے۔اس بیچ اتنا امتیاز رکھنا ضروری ہے کہ ایک فرد بیک وقت مذہبی، سیکولر، لبرل اور جمہوریت پسند ہو سکتا ہے۔اس لئے دست بستہ التماس ہے کہ نسیم حجازی کے گھوڑوں کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو حق و باطل کا بیرو میٹر نہ بنائیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments