ٹیکنالوجسٹ کے حقوق کی جنگ


میٹرک کے بعد تین سال ٹیکنیکل ڈپلومہ کیا جاتا ہے۔ جسے ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجنئیرنگ کہا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں۔ جب انڈسٹریز ہوا کرتیں تھیں۔ ان انڈسٹریز کو ماہر ٹیکنیشنز کی ضرورت پڑتی تھی۔ انجنیئرنگ کرنے کے بعد وائٹ کالر نوکری کرنے والے باقاعدہ پریکٹیکل کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ جس بنا پہ یہ ڈپلومہ پاکستان میں متعارف کروایا گیا۔ آہستہ آہستہ انڈسٹری سکڑنا شروع ہو گئی تو اس تعلیم سے وابستہ لوگوں نے آگے پڑھائی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

تمام انجنئیرنگ یونیورسٹیز میں ڈپلومہ ہولڈرز کا کوٹہ دو فیصد رکھا گیا۔ جبکہ ایف ایس سی والوں کا ان سے اٹھانوے فیصد زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ڈپلومہ ہولڈرز انجنیئرنگ میں داخلے کے لیے تقریباً نا اہل ہو گے۔ اتنے بڑے کمپیٹیشن سلاٹ میں گزر کے کم لوگ یونیورسٹی میں داخلہ لے پاتے ہیں۔ کافی سوچ و بچار کے بعد 1970 میں بی ٹیک کی ڈگری متعارف کروائی گئی۔

شروع شروع میں یہ ڈگری یونیورسٹی آف انجنیئرنگ ہی کرواتیں تھیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب کے آنے کے بعد پرائیویٹ یونیورسٹیز بھی بی ٹیک کروانا شروع ہو گئیں۔ بی ٹیک ایک چار سالہ انجنیئرنگ کے برابر ڈگری ہے۔ جس کا کورس ورک بھی انجنیئرنگ کے کورس سے ننانوے فیصد ملتا ہے۔ حتی کہ بی ٹیک میں زیادہ تر فیلڈ ورک کے تجربے والے طالبعلم زیادہ ہوتے ہیں۔ پہلے پہل ٹیکنالوجسٹ اپنی شناخت کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور انجنیئرنگ کونسل کے درمیان فٹ بال کی طرح کھیلے جا رہے تھے۔

آخر پہ ان کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ایک ٹیکنالوجسٹ کا ادارہ معرض وجود میں آیا۔ تاکہ ادارہ ان ہنرمند افراد کو قبول کرے، اور کام کرنے کے لیے سرٹیفیکٹ جاری کرے۔ جس طرح انجنیئرز کو ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے اپنا انجنیئرنگ نمبر ملتا ہے۔ مگر اس ادارے نے ماسوائے بی ٹیک والوں کو ٹیکنالوجسٹ کا ٹائٹل دینے کے، کوئی کام نہیں کیا۔

بیشمار میٹنگز ہوئیں، اونٹ کے کل کی طرح اہم فیصلہ ساز کرسیاں ریاست کے ہنر مند افراد کے ساتھ شودروں والا سلوک کر رہی ہے۔ بیشمار لوگ ان فیصلوں کے مؤخر ہونے پہ شدید مالی اور ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ ابھی ایک ادارے کی بیجا مخالفت اور ذاتی انا کی بنا پر تمام معاملات لٹکے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے، انڈیا میں بی ٹیک والوں کو ریاست باقاعدہ انجنیئرنگ نمبرز، اور سرٹیفیکیٹ ایشو کرتا ہے۔ بیرون ممالک نوکریوں میں اب بہت سے ٹیکنالوجسٹس کو ٹیکنالوجسٹ کے ادارے کی وجہ سے خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کم از کم میری اس ہم سب کے پلیٹ فارم سے احکام بالا سے درخواست ہے، کہ ٹیکنالوجسٹس کے ساتھ شودروں جیسا توہین آمیز سلوک بند کیا جائے۔ ڈگریز کو انجنیئرز کی طرح نمبر جاری کیے جائیں۔ تا کہ ٹیکنالوجسٹ بیرون ممالک باعزت روزگار کما سکیں۔ ملک خداداد سے یہ پڑھے لکھے ہنرمند افراد نوکری نہیں مانگ ر ہے، اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاکہ اپنے خاندان والوں کے لیے دو وقت کا بندوبست کرسکیں۔

نوٹ۔ یہ بلاگز اپنے دوست محترم توقیر رانجھا صاحب ٹیکنالوجسٹ، اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی درخواست پہ لکھا گیا ہے، جو ٹیکنالوجسٹس کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).