Blog on intolerance


چودہ اگست کی رات کو وفاقی دارالحکومت کے ایک سیکٹر معمولی سی ایک بحث اور اختلاف کے بعد گولیوں کی آوازیں سنائی دینا ہمارے اسی عمومی رویے کی عکاسی کرتاہے جس کی افزائش اور جس کو پروان چڑھانے میں سراسر ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔ وہ رویہ جو بسوں کی بھیڑ سے لے کر گروسری اور بل جمع کرانے کی قطاروں میں بارہا نظر آتا ہے اور افسوس کا مقام جن کو تدارک کرنا تھا جس نوجوان نسل کو روشنی کی کرن بننا تھا وہی اس عدم برداشت کا موجب اور علمبردار دونوں ہے۔ کہیں شادی سے انکار پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے تو کہیں تیزاب پھینک کر چہرہ بگاڑا جاتا ہے۔ کہیں خودکشی کو گلے لگایا جاتا ہے تو کہیں عزتیں نیلام ہوتیں ہیں عزتیں جن کے رکھوالے ہم سب ہیں۔

عدم برداشت یعنی جس سے اختلاف ہو اسے مار دو مار نہیں سکتے تو کردار پامال کرو وہ بھی نہیں کر سکتے تو کچھ لوگوں کو خلاف کرو اور اگر وہ بھی ممکن نہیں تو ماں بہن کی موٹی موٹی گالیاں دے کر دل ٹھنڈا کر لو کیونکہ تعلیمی اور علمی بحث کرنا تو ہمیں سکھایا ہی نہیں گیا برداشت کا لفظ تو ہماری لغت میں رکھا ہی نہیں گیا اور یہ حال محض ہمارے معاشرے اور ہماری نوجوان نسل کا نہیں بلکہ کم و بیش دنیا کے تمام معاشروں کا مشترکہ المیہ ہے جو کہ ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو اپاہج اور ذہنی معذور بنا رہا ہے۔

وجوہات کی بات کی جائے تو سب کو کہیں نہ کہیں اپنا آپ ضرور ملوث نظر آئے گا۔ مقابلے کی فضا آگے سے آگے بڑھنے کا جنون، اوور کراؤڈنگ، کمیونیکیشن گیپ، سوشل میڈیا کی لت اور اسلحے اور نشہ آور اشیا تک عام رسائی کا شاخسانہ عدم برداشت کی صورت میں نکلنا ہرگز انہونی نہیں ہے۔

سنتے آئے تھے کہ آنے والا دور نفسا نفسی کا ہو گا تو جناب یہ نفسا نفسی، میں اور میرا کا الاپ، اور جنون اس کو پروان چڑھانے میں ضرور مددگار عوامل ہیں مگر کبھی ان والدین کو دیکھا جو اپنے بچے کا بچپن تباہ کرتے ہوئے اسے انکل سام کے سامنے گانا گانے، تلاوت سنانے اور ناچ کر دکھانے کا کہتے ہیں اور جواباً انکل سام اپنے منے کو بھی بڑھ چڑھ کر بطور سٹنٹ ماسٹر فخریہ پیش کرتے ہیں اور یوں یہی رویے ان بچوں کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے تک اتنے پختہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ کسی قسم کی اختلاف رائے، کسی کی کامیابی و کامرانی، کسی کی خوشی کو سیلیبریٹ کرنے کے بجائے عدم برداشت اور حسد کا ملاپ ان کو نفرت کے دائروں کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے اور ایسے بچے اور نوجوان بسا اوقات عدم برداشت اور جنونیت کے اس درجے تک پہنچتے ہیں جہاں جان لینا نہایت معمولی فعل لگتا ہے۔

اختلاف رائے جس کا مقصد و معنی ہمیں کبھی سکھایا ہی نہیں، لاجک کس چڑیا کا نام ہے ہمیں معلوم نہیں کیونکہ ہم ٹھیک ہیں تو ہیں، لاجک جائے بھاڑ میں کتابوں کو لگے آگ میں اگر ٹھیک ہوں تو ہوں مجھے مکمل حق حاصل ہے میں اپنا نظریہ کسی پر بھی مسلط کروں کسی بھی تعلیمی و تعمیری بحث کے عدم برداشت کا پیروکار ہونے کے ناتے گالم گلوچ اور مار کٹائی کر کے فاتح اعظم بننا ہی کامیابی کیونکہ میں برداشت اور ٹالرنس نام کی چڑیا سے ناواقف ہوں اور میرے اندر میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے لیکن یہی رویہ تباہی کا موجب ہے مجھے بتایا نہیں گیا کیونکہ میں دیکھا تو ہے سیکھا نہیں۔

اکثر بات ہوتی ہے عزت اور برابری کی لیکن جب عمل کرنے کا موقع آتا ہے تو ہمارے اندر کا تعصب سے بھرپور، برداشت سے ناآشنا شخص لوگوں کو رنگ نسل، گریڈ اور سٹیٹس کے مطابق عزت دیتے ہوئے برابری اور برداشت کے تمام پاٹ بھول جاتا ہے اور یہی رویہ ہر دو لوگوں میں عدم برداشت کی بنیاد رکھتا ہے دینے والا حق دینا نہیں چاہتا اور لینے والے کے پاس چھیننے کے سوا چارہ کوئی نہیں ہے اور ہوں ایک نیا باب نئی دشمنی کی بنیاد بنی۔

نشہ اور اسلحہ تو جیسے نوجوان نسل کا فخر بن چکے ہیں ایک سروے کے مطابق ہر دس میں سے سات بچے کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں اور وہ سگریٹ سے شروع ہوتا کوکین اور اب متھ تک پہنچ چکا اور رہا اسلحہ وہ تو مومن کی شان ہے، سواگ اور کلاس ہے، تو ایک پل کو سوچئیے نشہ، اسلحہ اور عدم برداشت مل کر کتنے گھر جلا چکے ہیں اور کتنی تباہی کا سامان ابھی باقی ہے۔

ایک اور خون آشام بلا کا نام سوشل میڈیا ہے جو عدم برداشت کا سامان اور فروغ دونوں بخوبی کرتا ہے، جب بچے کی پیدائش کے پہلے سال میں اس کے سامنے موبائل پر وڈیوز چلانا شروع کر دی جائیں تو کیا وہ برداشت کی وجہ بنیں گی؟ دیکھئیے بات ایسی ہے کہ اپر اور ایلیٹ تو ٹرینڈ بننے اور وائرل پنے کے چکروں میں نہ صرف اپنا بلکہ اپنے جاننے والوں اور معاشرے کا سکون بھی داؤ پر لگا چکے ہیں اور ویسے بھی سونے کے نوالے کے ساتھ برداشت کا سبق آؤٹ ڈیٹد سا لگتا ہے اور پھر کیبورڈ جہادی اور جنونی آتے ہیں جو فقط خود کو درست اور اپنے نظریے کو سچا مانتے ہیں ان سے اختلاف رائے رکھنے والا یا مختلف سوچ اور فکر کا عامل مرتد، کافر انسان دشمن ہے گالی ان کا وتیرہ اور فتوے لگانا ان کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے۔

اتنی شدت پسندی، اتنی نفرت، اتنی انتہا پسندی کہ کسی کو بھی مار دو، وہ دین جو امن اور محبت سکھاتا ہے اس کا نام لو اور کسی کو بھی مار ڈالو کیونکہ جہلا کے اس ٹولے کو برداشت کے مفہوم و مطلب سے نہ کوئی غرض ہے نہ ہی واسطہ، نہ ہم سیکھے نہ پڑھے اور نہ ہی سمجھے اور ارادہ بھی نہیں ہے کیونکہ جناب میں نہیں مرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).