توہین آمیز خاکے اور آزادی اظہار


پاکستان کی قومی اسمبلی نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی سرکاری عمارات پر نمائش اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں صدر ایمونائل میکرون کے حالیہ بیانات کی مذمت میں قرار داد منظور کی ہے ۔وزارت خارجہ نے فرانسیسی سفیر کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا ہے۔ فرانس نے ترک صدر طیب اردوان کے اس بیان کے بعد کہ ’فرانسیسی صدر کو دماغی معائنہ کروانا چاہئے‘ انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور اس بیان کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ اس کے جواب میں صدر اردوان نے ترک عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔

لفظوں کی یہ جنگ گزشتہ جمعہ کو پیرس کے نزدیک ایک استاد کے بہیمانہ قتل کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے شروع ہوئی ہے۔ جغرافیہ اور تاریخ کا یہ استاد گزشتہ کچھ عرصہ سے آزادی رائے کے سوال پر لیکچر دیتے ہوئے طالب علموں کو ڈنمارک میں 2006 میں شائع ہونے والے وہ گستاخانہ خاکے دکھاتا تھا جو بعد میں فرانس کے فکاہی جریدے چارلی ہیبڈو نے 2014 میں شائع کئے تھے۔ اس کے بعد چالی ہیبڈو کے دفترپر دو دہشت گرد بھائیوں نے حملہ کرکے 12 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ان حملوں میں معاونت کے الزام میں فرانس کی ایک عدالت میں 14 افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ اس د وران پیرس کے مضافات میں سیموئیل پیٹی نامی استادنے آزادی اظہار پر لیکچرز میں یہ متنازعہ خاکے دکھانا شروع کردیے۔کلاس میں شریک مسلمان طلبہ کی طرف سے احتجاج پر استاد کا کہنا تھا کہ اگر انہیں یہ خاکے اچھے نہیں لگتے تو وہ منہ پھیر لیں یا آنکھیں بند کرلیں۔

ایک ایسے اسکول میں جہاں مسلمان طالب علموں کی قابل قدر تعداد بھی پڑھتی ہے ایک استاد کے اس طرز عمل پر بے چینی شروع ہوئی اور مسلمان والدین نے اسکول کی انتظامیہ سے اقدام کرنے کی درخواست کی ۔ تاہم انتظامیہ نے مسلمان والدین کے احتجاج کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اسی دوران ایک مسلمان لڑکی کے والد نے دوران تعلیم گستاخانہ خاکے دکھانے کے خلاف مہم شروع کی ۔ سوشل میڈیا پر استاد اور اسکول کے خلاف مسلمانوں کو اس مہم میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس مہم جوئی میں شائع کی جانے والی ویڈیوز میں سے ایک ویڈیو کو ایک مقامی مسجد نے بھی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا جس کی وجہ سے اب یہ مسجد چھ ماہ کے لئے بند کردی گئی ہے۔ اسی طالبہ کے والد کا اس حوالے سے چیچینیا کے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان سے رابطہ ہؤا۔ اس نوجوان نے 16 اکتوبر کو اسکول کے بعض مسلمان طالب علموں کی مدد سے متنازعہ خاکے دکھانے والے استاد کو شناخت کیا اور اسکول سے باہر حملہ کرکے اسے قتل کردیا اور چاقو سے اس کا سر قلم کردیا ۔ پولیس وقوعہ پر پہنچی اور حملہ آور نوجوان کو گرفتار کرنے سے پہلے ہی گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ قاتل نے انتباہ کے باوجود آلہ قتل پھینکنے سے انکار کیا تھا۔

اس المناک سانحہ کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ، ان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا اور حملہ آور نے فوری اشتعال میں اس استاد کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ اس حملہ اور قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ واقعہ کے بعد پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں استاد کو شناخت کروانے والے طالب علم بھی شامل ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان طالب علموں نے مقتول استاد کی نشاندہی کے لئے خطیر رقم وصول کی تھی۔ ایک استاد کے وحشیانہ طریقے سے قتل کے سانحہ پر فرانس میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور پیرس سمیت ملک بھر کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے اس سانحہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ۔ اس واقعہ پر فرانسیسی صدر میکرون اور حکومت کا رویہ شدید اور جارحانہ تھا۔ صدر میکرون نے مسلمانوں، اسلام اور بعض عرب ملکوں کے بارے میں سخت بیان دیے اور اسلام کو بحران کا مذہب قرار دیا۔ اس کے علاوہ سرکاری عمارتوں پر متنازعہ خاکوں کی نمائش کروانے کے علاوہ کہا کہ یہ ’ہمارے خاکے ہیں ، ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے‘۔

فرانس نے مساجد کا کنٹرول سخت کرنے، سعودی عرب اور قطر سے مختلف اسلامی مراکز کو فراہم ہونے والے وسائل کی نگرانی اور مسلمان مذہبی لیڈروں کی تعلیم کے حوالے سے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ صدر ایمونائل میکرون نے مقتول استاد کو قومی ہیرو اور فرانس کی جمہوری سیکولر اقدار کا نمائیندہ قرار دیتے ہوئے انہیں مرنے کے بعد ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز بھی دیاہے۔ اس واقعہ پر فرانسیسی صدر نے تواتر سے سخت بیان دیے ہیں اور ایک تازہ ٹوئٹ میں وعدہ کیا ہے کہ ’ہم ہار نہیں مانیں گے‘۔ صدر میکرون نے 1905 کے ان قوانین کو سخت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جو ملک میں سیکولر اقدار کا تحفظ کرتے ہیں۔ سیکولرازم اور آزادی رائے کی فرانسیسی تفہیم کے مطابق مذہب اور اس سے وابستہ شخصیات کی ’توہین ‘ کرنا بنیادی انسانی حق ہے اور اسے تحفظ ملنا چاہئے۔ تاہم ترکی اور پاکستان سے سامنے آنے والے ردعمل میں کہا گیا ہے کہ صدر میکرون نے اپنے بیانات میں شدت پسندی اور اسلام کو علیحدہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

فرانس کی 67 ملین آبادی میں دس فیصد کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ عام طور سے فرانس میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک، سماجی تنہائی اور تعصبات کا سامنا ہے۔ حجاب اور دیگر اسلامی روایات کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور سیکولر تعلیمات کے نام پر مسلمانوں کی آواز دبانے کے لئے مختلف النوع اقدمات کئے جاتے رہے ہیں۔ مؤثر مکالمہ اور مواصلت کے بغیر یک طرفہ اقدامات سے مسلمان نوجوانوں میں غم و غصہ اور اجنبیت کا احساس پیدا ہوتا رہا ہے۔ جنوری 2015 میں چارلی ہیبڈو پر حملہ میں درجن بھر لوگوں کے قتل کے بعد یہ صورت حال سنگین ہوئی ہے۔ فرانس میں اس دہشت گردی کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔ تاہم فرانسیسی مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بھی اس غم و غصہ میں اپنے اہل وطن کا ساتھ دیا تھا۔ دنیا بھر کے مسلمان ملکوں نے فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کو مسترد کیا تھا اور چارلی ہیبڈو حملہ کے خلاف پیرس میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ میں بعض مسلمان سربراہ بھی شریک ہوئے تھے۔ دنیا میں دہشت گردی کو شکست دینے کے باوجود فرانس جیسے کثیر العقیدہ معاشرہ میں مسلمانوں کو معاملات میں شامل کرنے اور انتہاپسندانہ رجحانات کو باہمی مواصلت سے ختم کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

پیرس کے نزدیک ایک استاد کے قتل کے بعد سامنے آنے والے واقعات سے بھی کثیر الثقافتی معاشرے کے طور پر فرانس کی ناکامی کا پتہ چلتا ہے۔ مقتول استاد نے گستاخانہ خاکے دکھاتے ہوئے اپنے طریقے پر اصرار کیا اور مسلمان طالب علموں کے رد عمل کو خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسکول نے والدین کے احتجاج پر غور نہیں کیا۔ ایسے میں مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی کا بظاہر انتہاپسند عناصر نے فائدہ اٹھایا اور ایک استاد کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن پولیس نے جس طرح قاتل کو موقع پر ہی ہلاک کیا ہے، مہذب دنیا میں اس کی مثال بھی نہیں ملتی ۔ استاد کے قتل پر احتجاج کرنے والے فرانسیسی صدر، پولیس کے اس انتہاپسندانہ طریقہ پر غور کرنے کا وقت نہیں نکال پائے۔ فرانسیسی پولیس اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث افراد کو موقع پر ہی قتل کرتی رہی ہے۔ ایسے واقعات کو معمول سمجھ کر قبول کرلیا جاتا ہے کیوں کہ مرنے والا کوئی مسلمان دہشت گرد قرار پاتا ہے۔ لیکن کیا فرانسیسی پولیس کا یہ طریقہ فرانس کی قانونی روایات سے مطابقت رکھتا ہے یا صرف مسلمان دہشت گردوں کے خلاف اسے کھلی چھٹی دی گئی ہے۔

استاد کے قتل کے بعد اٹھنے والے یہ سوالات اگرچہ اہم ہیں لیکن ان سے اس درندگی اور بربریت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کا مظاہرہ ایک استاد کو بعض خاکے دکھانے کی پاداش میں قتل کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ اسے فرانس کے مسلمانوں کی بے چینی کہہ کر آگے بڑھنا بھی ممکن نہیں ہے بلکہ اس دہشت گردی اور مجرمانہ ذہنیت کی مذمت کرنے اور مسلمانوں کی صفوں سے ایسے عناصر کا خاتمہ کرکے ہی یورپی معاشروں میں مسلمانوں کا اعتبار و احترام بحال ہوسکتاہے۔ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے مسلمانوں اور یورپی سوچ میں بنیادی تضاد ہے۔ مسلمان توہین آمیز خاکوں کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں جبکہ اظہار رائے کی یورپی توجیہ میں مذہب اور اس کی علامات کا مذاق اڑانا بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے جسے تقریباً کسی مذہبی عقیدہ ہی کی طرح مقدس مانا جاتا ہے۔ اس تضاد پر فکری مباحث اور سیاسی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے لیکن عام طور سے سیاسی لیڈر ایسے واقعات کو مقبول سیاسی بیانیہ میں تبدیل کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

صدر میکرون کے بیانات صرف ایک استاد کا سوگ یا فرانسیسی روایات کو راسخ کرنے کی کوشش نہیں ہیں بلکہ وہ ان بیانات سے اپنی گرتی ہوئی سیاسی مقبولیت اور کورونا سے پیدا ہونے والے سماجی، طبی اور سیاسی و معاشی مسائل میں اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاکہ دو سال بعد ہونے والے صدارتی انتخاب میں وہ دوبارہ کامیاب ہوسکیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ فراموش کررہے ہیں کہ اس طرح وہ فرانسیسی معاشرہ میں انتشار و اضطراب کی کیفیت میں اضافہ کا سبب بھی بنے ہیں جو ملک کے لئے طویل المدت چیلنجز کا باعث ہو گا۔

اس واقعہ اور صدر میکرون کے بیانات پر صرف ترکی اور پاکستان نے رد عمل دیا ہے۔ دیگر کسی مسلمان ملک سے کوئی بیان جاری نہیں ہؤا۔ ترکی کے آذر بائیجان کے علاوہ دیگر متعدد معاملات پر فرانس کے ساتھ اختلافات ہیں۔ اس لئے صدر اردوان کےرد عمل کو بھی وسیع تر سیاسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاکستانی قومی اسمبلی میں فرانس کے خلاف قرار داد کے سوال پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جس طرح چپقلش دیکھنے میں آئی، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ اس نازک معاملہ کو ہر فریق اپنے سیاسی عزائم کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

عمران خان نے اس صورت حال کو اسلاموفوبیا قرار دے کر اور فرانس کے خلاف بیان دے کر اپنی حکومت کی ناکامی کے خلاف سامنے آنے والے احتجاج میں سیاسی عذر تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ معاملہ مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصبات سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس میں آزادی رائے کی تفہیم اور مذہبی روایات کے احترام میں پائے جانے والا تضاد سامنے آیا ہے۔ یہ مسئلہ بیانات سے حل نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لئے اپنا نقطہ نظر سمجھانے اور دوسروں کا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بیان بازی سے پیدا کئے جانے والے اشتعال میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ مسلمان لیڈر مذہبی جذبات کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال سے گریز کریں، تب ہی مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصبات پر غور ممکن ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali