اگلی تبدیلی کیا ہوگی؟


تاریخ حکمرانوں کے قصے کہانیوں کا نام نہیں۔ یہ اسباق کا مجموعہ ہے۔ سیاست میں اسباق بہت ہیں، مگر ان پر غور و فکر کسی کو گوارا نہیں۔ ایک شخص جس نے ایک مدت اقتدار کی راہداریوں میں گزاری ہے۔ وہ تین عشروں کے دوران مختلف شکلوں میں وقتاً فوقتاً طاقت کی راہداریوں میں چہل قدمی کرتا رہا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے کوئی سبق نہ سیکھا ہو گا؟ مگر اس سبق کے اظہار میں اتنی دیر کیوں۔ اتنی طویل خاموشی کیوں؟

پی ڈی ایم کے جلسوں میں جو کچھ ہوا، جن خیالات کا اظہار ہوا، ان میں کچھ نیا نہیں ہے۔ مگر جو پیغام دیا گیا اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ جلسوں اور احتجاج کے ان مظاہرے کے کہیں پہلو ہیں۔ ہر پہلو غور طلب ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ گزشتہ تین عشروں میں میں اقتدار کے ایوانوں میں جو کھیل کھیلا جاتا رہا، ان کے شرکا ہوں یا شکار، انہوں نے اس پر اتنی طویل خاموشی کیوں اختیار کی۔

ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اگر منتخب لوگ یوں بے بسی و بے چارگی کی تصویر بن جائیں تو پھر ایک آئینی جمہوریت کا کیا مطلب؟ انتخابات کا مطلب کیا ہے اور مخلوق خدا کو اس مشق سے بار بار کیوں گزارا جاتا ہے۔ اس کا جواب بہت ہی سیدھا اور دو ٹوک ہے کہ کسی کے ہاتھ میں طاقت اور اقتدار کی لگام دینے سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اسے عوام کی حمایت اور منظوری حاصل ہے کہ مخلوق خدا کی مرضی کے بغیر اس پر حکومت کا اختیار کسی کو نہیں۔

یہ سبق جب انسان نے بحیثیت مجموعی تاریخ سے سیکھا ہے۔ آئینی جمہوریت کا تقاضا صرف یہ ہی نہیں ہوتا کہ جن پر حکومت کی جائے ان کی مرضی لینا لازم ہے، بلکہ اس کا تقاضا یہ بھی ہوتا ہے ہے کہ ان کی مرضی لے کر کر اقتدار کے سنگھاسن پر پر براجمان ہونے والوں کو ان کی مرضی اور منشا کا لحاظ بھی رکھنا پڑتا ہے۔ عوام جب کسی فرد یا جماعت کا انتخاب کرتے ہیں، تو ان کے سامنے وہ نعرے دعوے اور وعدے ہوتے ہیں، جو ان کی زندگی کے مصائب کو کم کرنے اور ان میں آسودگی لانے کے لئے لیے کیے جاتے ہیں۔

اس کا تیسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ انتخابات کے دوران تو عوام سے وعدے سب کرتے ہیں، لیکن عوام اپنا اعتماد دیتے وقت کئی عناصر پر غور کرتے ہیں، جس میں اقتدار کے خواہشمند مند شخصیات کی شخصیت، ان کا طرز زندگی، ان کا رہن سہن عوام کے ساتھ ساتھ ان کا برتاو، ان کی تقاریر اور وعدے سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ جو رہنما عوام سے مینڈیٹ لے رہے ہوتے ہیں، ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اقتدار میں جا کر اپنے ایجنڈے اور وعدے کے مطابق عمل کریں گے۔

لیکن اگر اقتدار میں پہنچ کر منتخب ہونے والی شخصیات مجبوریوں کا شکار ہوجائیں۔ خواہ وہ مجبوریاں ملک کے بالادست طبقات کی وجہ سے ہوں، یا وہ مجبوریاں ان کی وہ ان دیکھی زنجیریں ہوں جو مراعات یافتہ اور طاقتور طبقات ان کو پہنا دیتے ہیں، یا وہ فرمان ہوں، جن کی اطاعت ان پر لازم ٹھہرتی ہے، تو عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ پھر یہ عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے، جو مجروح ہوتا ہے، اور اس سے جمہوریت کے بنیادی تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب طویل عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں رہ کر جن لوگوں کو اپنی طاقت اور اختیار کے تحفظ کی ضرورت نہیں محسوس کی تو اب اقتدار سے باہر ہونے کے بعد اس کی ضرورت اتنی شدت سے کیوں محسوس ہوئی؟ جو سچ اب بولا جا رہا ہے یہ برسوں پہلے نہیں بولا جانا چاہیے تھا؟

یہ دیر آئے درست آئے والا معاملہ ہے۔ اور اگر کوئی بھی شخص طویل مدت کے بعد سچائی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے، یا سچائی کو چراغ راہ بنانا چاہتا ہے تو اسے اس کا موقع دیا جانا چاہیے کہ اگر اس بنیاد پر لوگوں کو ان کی سوچ اور فکر میں تبدیلی سے روکا جائے آئے تو دنیا میں ہر طرح کی نشوونما اور ہر طرح کی ترقی و بہتری کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں یہ بالادست طبقات اور اشرافیہ کی کی آپس میں لڑائی ہے، جس میں عوام کو ایندھن کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بیانیہ بظاہر کافی حد تک درست ہے، لیکن یہی پورا سچ نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بے شک یہ بالادست طبقات کی لڑائی ہو، لیکن اس لڑائی میں ایک طرف جو بیانیہ ہے، وہ جمہوریت کو طاقت دینے اور اسے ہر طرح کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کے بغیر کسی ملک میں جمہوریت کو نشوونما کا موقع نہیں مل سکتا۔

اس میں بالادست طبقات کے مفادات ضرور ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ جمہوریت ہی ہے جو عوام کو بالادست طبقات کے مقابلے میں طاقت عطا کرتی ہے۔ فی الحال جمہوریت ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ تو اس طرح یہ بالادست طبقات کی ایسی لڑائی ہے۔ جس کی کئی کڑیاں ہیں، اور ان میں ایک کڑی عوام سے بھی جڑتی ہے۔

رہنماؤں کے مفادات اور عزائم جو بھی ہوں، مگر عوام کا جوش و خروش ہے، اور ان کا جو غصہ اور ناراضگی ہے، ان کے لہجے میں میں جو تلخی ہے، وہ عوام کی فرسٹریشن کو ظاہر کرتی ہے۔ جیسا کہ ایک جلسے میں موقع پر موجود ایک صحافی نے کہا ہے کہ عوام حکمران طبقات اور حزب مخالف دونوں سے آگے نکل چکے ہیں۔ عوام کا آگے نکلنے کا جو عمل ہے، وہ عوام کی ناقابل برداشت مصائب اور ان کے برسوں پرانے مسائل کا نتیجہ ہے۔ اس لیے جو لوگ تبدیلی لانے نکلے ہیں، اور اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچانے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بار بار عوام کو روایتی طریقوں سے وعدوں اور نعروں سے مطمئن کر ناممکن نہیں ہوگا۔

پاکستان کو اس وقت دو بڑے سوال درپیش ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا سوال دولت کی منصفانہ تقسیم کا سوال ہے۔ دوسرا بڑا سوال عوام کی شمولیت سے معاشرے کی از سر نو سماجی اور معاشی تشکیل ہے، جس کے بغیر عوام کی زندگی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ جو لوگ تبدیلی کا عزم لے کر نکلیں ہیں، کیا ان کے ایجنڈے میں کوئی ایسی چیز شامل ہے، جو اس ملک میں معاشی تشکیل نو کر سکے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم، روزگار، تعلیم، صحت، روٹی کپڑا اور مکان کے کے مسائل کو حل کر سکے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جو بھی تبدیلی آئے گی وہ وقتی ہوگی، جس کی بطن سے ایک نئی تبدیلی جنم لے گی، جو اپنے ریلے میں ان رہنماؤں کو بھی بہا کر لے جائے گی، جو آج اس تبدیلی کے نقیب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).