حکومت کی ڈھنڈیا پڑی ہے اور عمران خان جہاد پر ہیں


پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے آج اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’ملک کو آخر کون چلا رہا ہے؟‘ ملک میں پائے جانے والے حالات میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس وقت ملک میں حکمرانی کا شدید قحط محسوس کیا جاسکتا ہے۔ حالات پر کسی ادارے یا اتھارٹی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن،پاکستان جمہوری تحریک کے ذریعے حکمرانوں کے لئے مشکل کا سبب بنی ہوئی ہے تو حکومت نے بھی باقی کام دھندا چھوڑ کر اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لئے بیان بازی میں ساری صلاحیت صرف کرنے کا عزم کیا ہؤا ہے۔

وزیر اعظم کو بے اختیار کہنا تو ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ اب بھی جیل حکام کو ہدایت کرسکتے ہیں کہ شہباز شریف کو کیسے تنگ کرنا ہے اور کیوں کر ان کے ساتھ عام مجرموں جیسا سلوک روا رکھنا ضروری ہے۔ اور وہ اب بھی یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ چاہیں تو برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے فون پر بات کرکے نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کا تقاضہ کرسکتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو خالص سیاسی معاملات ہیں جنہیں عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت بنیادی سماجی، اخلاقی اور قانونی مسائل سمجھتی ہے۔ ان دونوں میں سے جس رائے کو بھی تسلیم کیا جائے، اصل سوال تو یہی ہے کہ عوام کو اس وقت جن شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے، ان کے حل کے لئے حکومت کیا اقدام کررہی ہے۔ ان سوالات کا جواب فی الوقت حکومت وقت کے پاس نہیں ہے۔ شاید اسی لئے شیری رحمان کو یہ کہنے اور عام لوگوں کو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ حکومت کہاں ہے یا حکمرانی کا اختیار کس کے پاس ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کی تحریک شروع ہونے کے بعد بڑی ہنر مندی سے فوج کی تائید و اعانت کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے یہ اعلان شروع کیا ہے کہ کسی کو عسکری قیادت اور اداروں کو بے آبرو کرنے یا ان پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حالانکہ جن اداروں کے بارے میں ملک کےتین شہروں میں جمع ہونے والے لاکھوں لوگ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہی دراصل حکمرانی کی سیج سجاتے ہیں اور مہروں کو ادھر ادھر کرتے ہیں، وہ اپنی شہرت قائم رکھنے کے لئے کیوں کر عمران خان یا ان کے وزیروں کے پرجوش بیانات کے محتاج ہوسکتے ہیں۔ حکومت اپوزیشن پر اداروں کے خلاف ماحول آلودہ کرکے دشمن ایجنڈے کی تکمیل کا جو اعلان بڑے اصرار سے کرتی ہے، حقیقت میں وہ خود ہی اس ایجنڈے کی تکمیل کا اہم ترین کردار بن چکی ہے۔

 ایک تو اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے نام پر کی جانے والی بیان بازی میں منتخب حکومت ملکی معاملات کی نگرانی کرنے کی بجائے محض عسکری قیادت کا ’محافظ‘ بننے پر اصرار کررہی ہے۔ اسے اس بات سے غرض نہیں ہے کہ باقی معاملات کیسے سرانجام پائیں گے۔ اس طرح حکومت اپنے اقوال کے علاوہ عملی کردار سے یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ اس کا کام امور مملکت کو دیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف اپوزیشن کی نگرانی کرنا اور ان کی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دینا ہے۔ اگر اپوزیشن سے پوچھا جائے بتاؤ تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عمران خان کو 2018 کے انتخابات سے پہلے ہی ملک کے اگلے وزیر اعظم کے طور پر ’چن‘ لیا گیا تھا۔ تو اپوزیشن کو دلیل دینے کی زحمت نہیں کرنا پڑے گی کیوں کہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی اپنی باتوں سے یہ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ وہ کس طرح برسر اقتدار آئے ہیں۔

اس کے علاوہ اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی میں، تصادم اور معاشی تعطل کی جو صورت حال پیدا کی گئی ہے، اس کی براہ راست ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ کسی سیاسی احتجاج کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ اہم ہوتا ہے کہ حکومت کارکردگی کے ذریعے اس احتجاج سے ملکی معاملات کو متاثر نہ ہونے دے۔ عمران خان کی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے اگرچہ ملک میں سیاسی انتظام کے لئے ’نامزدگی‘ اور سیاسی انجینرنگ ختم کرنے کا مطالبہ سر فہرست ہے لیکن یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی، بیروزگاری اور سماجی و معاشی بے چینی کی موجودہ صورت حال پیدا نہ کرتی تو شاید اپوزیشن احتجاجی جلسے منعقد کرنے سے پہلے مزید غور کرتی۔ اپوزیشن کی تحریک کو اصل قوت معاشی امور میں حکومت کی ناکامی سے مل رہی ہے۔ اس کے باوجود حکومت عوامی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اپوزیشن لیڈروں کو خاموش کروانے، انہیں غدار قرار دینے یا جیلوں میں ڈالنے کے طریقوں پر غور کرنے میں وقت اور صلاحیت صرف کررہی ہے۔

بازار کی صورت حال درست کرنے کے لئے پہلے ’ٹائیگر فورس‘ کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی پھر پنجاب کی حد تک سستے بازار قائم کرکے لوگوں کو کم قیمت اشیائے صرف فراہم کرنے کا ڈول ڈالا گیا۔ اب سوشل میڈیا پر یہ خبریں ٹرینڈ کررہی ہیں کہ ان بازاروں میں سستا آٹا اور چینی لانے کی ذمہ داری پٹواریوں کے سپرد کی گئی ہے جو مارکیٹ سے اصل قیمت پر اجناس خریدتے ہیں اور پھر اپنی ’حلال‘ کمائی سے اسے ’رعائیتی‘ بنا کر سستے بازار میں فراہم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا چونکہ ایک بے لگام دنیا ہے جہاں کوئی کسی بات کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اس لئے ان میڈیائی افواہوں کو مصدقہ قرار دینا تو مشکل ہے لیکن اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ عوام میں حکومت کی نااہلی اور عدم توجہی کی بنا پر کس قدر بے چینی اور پریشانی فروغ پارہی ہے۔ اس بے چینی کو مین اسٹریم کو لگام ڈال کر چھپانا ممکن نہیں ہے۔

انتخابات کے نتیجے میں کوئی حکومت منتخب ہوکر آئے یا اسے نامزد کیا جائے لیکن اس کے پاس معاشی حرکیات کو درست سمت رکھنے اور عوام کو براہ راست اشتعال دلوانے والے اقدامات سے گریز کا ’اختیار ‘ ضرور ہوتا ہے۔ کوئی بھی یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ عمران خان اگر فوج کی اعانت سے برسر اقتدار آئے ہیں تو مہنگائی، روزگار، اجناس کی ترسیل اور معاشی اعتبار و استحکام کے لئے بھی فوج ہی میدان میں اتر کر اس کی مدد کرے گی۔ کسی سول حکومت کو انہی شعبوں میں کارکردگی کے ذریعے عوام کی حمایت اور غیر منتخب اداروں کی تائید ملتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ عوام اپنی پریشانی کا کھلے عام اظہار کردیتے ہیں جیسا اس وقت پی ڈی ایم کے احتجاج کے ذریعے عوامی غم و غصہ سامنے آرہا ہے لیکن اسٹبلشمنٹ یا ادارے طاقت ور اور ’بادشاہ گر ‘ ہونے کے باوجود کسی حکومت کے خلاف اپنی رائے ظاہر کرنے پر ’قادر ‘ نہیں ہوتے۔ عمران خان اس ’مجبوری‘ کو اپنی کامیابی سمجھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ وہ خود ماضی میں اسٹبلشمنٹ کی کس مجبوری کی وجہ سے منظر نامہ پر نمایاں ہونے میں کامیاب ہوئے تھے کہ بالآخر وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

اس سوال کا جواب جاننا اس لئے بھی اہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی حکومت کے خلاف بچھائے گئے جال کی تفصیلات اور اسے بننے میں کردار ادا کرنے والوں کے نام اب سرگوشیوں کی بجائے لاؤڈ اسپیکر پر لئے جانے لگے ہیں۔ عمران خان اس غلط فہمی سے باہر نکل آئیں تو ان کے اور ملک کے لئے بہتر ہوگا کہ اگر انہوں نے سیاست میں اداروں کی مداخلت کے الزامات کو مسترد کرنے میں گرمجوشی نہ دکھائی تو شاید ایک پیج والا تعاون کمزور ہوجائے گا۔ اسٹبلشمنٹ کے جو کردار اقتدار بانٹنے کا کام کرتے ہیں، انہیں اپنی سرخروئی کے لئے سیاسی جماعتوں کو وکیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود بھی الزامات کا جواب دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اگر وہ اس بحران سے نکلنے کے لئے خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں تو بزعم خویش اسی پیج پر موجود تحریک انصاف کی حکومت کو بھی اس سے سبق سیکھنے اور بحران میں چھلانگ لگانے کی بجائے، اس سے دامن بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

حکومت اور وزیر اعظم سمیت اس کے سارے نمائندے اگر یہ حکمت عملی اختیار کرسکیں تو اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو ملک میں بظاہر تصادم کی جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے، اسے کم کیا جاسکے گا۔ عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ اس صورت حال میں کسی سے بھی،کسی بھی وقت، کوئی غلطی ہوسکتی ہے۔ یہ غلطی کسی سے بھی سرزد ہو لیکن سب سے پہلے حکومت پر ہی اس کا اثر پڑے گا۔ موجودہ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دے سکے گی اور بھلا برا، انہیں حل کرنے پر غور کیا جاسکے گا۔ مارکیٹ کی صورت حال تبدیل کرکے اپوزیشن کا غصہ بھی کم کیا جاسکے گا اور حکومت کے لئے موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے کسی سیاسی مفاہمت کی طرف جانا بھی ممکن ہوسکے گا۔

وزیر اعظم عمران خان البتہ اپوزیشن کو چوروں ڈاکوؤں کا ٹولہ قرار دے کر بلاتخصیص کسی بھی طرح کے مکالمہ و مفاہمت کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم اس رویہ سے ملکی سیاست میں جو خلا پیدا ہورہا ہے اسے کسی نہ کسی کو تو پورا کرنا ہے۔ موجودہ صورت حال تادیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ ایسے میں عمران خان پر کیا گیا اعتبار مزید کمزور ہوگا۔ شبہات گہرے ہوں گے اور حکومت کو تلاش کرنے والے زیادہ زور سے پکاریں گے کہ اس ملک میں کس کی حکومت ہے؟ سوچنا چاہئے کہ اس کا جواب کون اور کیا دے گا؟ جس وقت ملک میں حکومت کی ڈھنڈیا پڑی ہے، عمران خان اسلاموفوبیا اور کشمیر کے جہاد میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali