جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں


\"mubashir-akram\"تم نجانے کب سے میرے دیس کے بیٹوں، بیٹیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہو۔ اس پر نازاں بھی ہو، اور اپنی اس وحشت کو اس مذہب کے ساتھ جوڑے جاتے ہو، جو دین فطرت کہلواتا ہے۔ فطرت کب سے خون کی پیاسی ہو چلی، مجھے معلوم نہیں۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

یہ میرا دیس ہے۔ یہ پاکستان ہے۔ یہ دنیا کی تین بڑی تہذیبوں کا وارث ہے۔ میری دھرتی پر ہندو دیوتا، شِیوا رویا تو کٹاس بنا۔ میری دھرتی پر سدھارنت کے وجدان اکمل ہوئے تو ٹاکشیلا بنا۔ میری دھرتی پر علی ہجویری آیا تو داتا بنا۔ یہاں سچل نے دھمال ڈالی، بھٹائی نے ہُوک لگائی۔ نورانی نے علم، فیض اور انسانیت بانٹی۔ یہاں پیر بابا ہے، اور غنی بابا بھی۔ یہاں ہِنگول ہے، قلات بھی۔ مریم آباد ہے تو سوات بھی۔ میرے دیس میں نانک گیان ڈھونڈتا رہا، پھر گیان بانٹتا رہا۔ یہاں سُچا سودا ہے تو جنم استھان بھی۔ یہاں وہ سب کچھ ہے، جو تمھارے چھوٹے پتھریلے سر میں کبھی نہیں سما سکتا۔ نہیں سما سکتا، تو تم مجھ سے، اور میں تم سے نہیں ہو سکتا۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

میرے دیس کی تہذیب میں عطااللہ شاہ بخاری ہے تو تقی عثمانی بھی۔ یہاں طالب جوہری ہے تو عباس جعفری بھی۔ یہ نیازی کی سرزمین ہے، تو نورانی کی بھی۔ محمد عبداللہ سلفی یہاں رہے اور مودودی بھی۔ یہاں غامدی ہے، تو احمد جاوید بھی۔ یہاں ہودبھائی ہے تو منور بھی۔ یہاں جالب رہا، فیض رہا، ظہیرکاشمیری رہا، حمید رہا، بشیر رہا۔ عبداللہ حسین اور انتظار حسین بھی۔ یہاں صفی رہا تو یوسفی بھی ہے۔ اور جس کے اشعار تم اپنے تشدد کے لیے دھوکے سے استعمال کرتے ہو، وہ اقبال بھی یہیں رہا، یہیں دفن ہے۔ یہیں رہے گا۔ تم یہاں کے نہ تھے، نہ ہو، نہ ہوگے اور نہ ہی رہو گے۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

اس کے بلوچستان میں مہر گڑھ ہے۔ سندھ میں موئنجو داڑو ہے، پنجاب میں ہڑپہ، خیبر پختونخوا میں رانی گھاٹ بھی۔ کشمیر میں شاردا اور گلگت بلتستان میں کیلاش بھی۔ اور میں سوات میں تو بدھا کے تباہ کر دئیے جانے والے مجسموں کی جیسے خوشبو سونگھ سکتا ہو۔ تم اپنے تشدد، جہالت اور خود ہی سے مسخ کیے گئے نظریات کو وہ مذہب بنا کر پیش کرتے ہو کہ جو انسان تو کیا، سبز درخت اور مویشیوں کو بھی مارنے سے منع کرتا ہے۔ تم حق نہیں۔ تم سچ نہیں۔ تم ٹھیک نہیں۔ تم غلط ہو۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

تم چہرے پر سنت محمدیؐ سجائے اور اپنے تئیں ماتھوں پر سجدوں کے نشان لئے پھرتے ہو۔ تم میرے بچوں کے خون کی پیاس کو اپنے خوف کی بنیاد پر لیے گئے فتوؤں سے اپنے لیے سچ بناتے ہو۔ جو تمھارے سچ کو سچ نہ مانے، تم اسے یوسف، نظام الدین اور حسن جان بناتے ہو۔ تمھارے ماتھوں پر سجدوں کے نشان نہیں، ماتھے گھسانے کے نشان ہیں، جو تم اپنی بند ذہنیت کی خفت مٹانے کو گھسائے چلے جاتے ہو۔ جیسے گھساتے چلے آئے ہو، ویسے گھساتے چلے جاؤ گے۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

یہاں ہندوؤں کو عروج ملا۔ یہاں بُدھوں نے گیان پائے۔ یہاں جین گھوما کرتے تھے۔ یہاں اسلام نے اپنی شناخت بنائی۔ یہاں مسیحیت پنپی۔ یہودی بھی رہا کرتے تھے۔ پارسی بھی۔ یہاں عالم تھے تو ملحد بھی۔ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی بولیاں بولتے تھے، تو کبیر بھی گلی گلی گھوم کر گایا کرتا تھا۔ یہاں اگر مفتی محمود مدرس تھے، تو غنی بابا بھی شاعر تھے۔ کسی کو کسی سے زندگی کا خوف نہ تھا۔ سب تھے، مگر تم نہ تھے۔ تم یہاں کے نہیں ہو۔ کبھی بھی نہ ہوگے۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

میں خوف پھیلانے والے تمھارے ان گنت روپ دیکھ چکا ہوں۔ تم کبھی ہتھوڑا گروپ بن کر آئے تو کبھی بسوں اور ٹرینوں میں دھماکے کیے۔ تم کبھی لشکر بن کر آئے تو کبھی انجمن بن کر۔ تم کبھی سپاہ بن کر آئے تو کبھی مجاہد بن کر۔ تم کبھی مختار رہے تو کبھی فرقان۔ کبھی جیش رہے تو کبھی انصار۔ تم کبھی نسل پرست بن کر آئے تو کبھی فیکٹریوں میں سینکڑوں کو زندہ جلایا۔ تم ٹپوری رہے تو کیپری بھی۔ تم نے میرے بچوں کے گلے کاٹے۔ تم نے بازاروں میں میری بیٹیوں کا لہو بہایا۔ تم نے میرے بزرگوں کو بے آسرا کیا۔ تم نے میرے نوجوانوں کو مایوس و گمراہ کیا۔ تم نے کبھی تقدیس کا خوف بنایا تو کبھی اپنے خوف کی تقدیس بنائی۔ تم نے اپنے خوف کی معیشت بنائی، اور اپنی معیشت کے خوف سے مزید خوف کو جنم دیا۔ تم نے میرے اساتذہ کو مارا، طالبعلموں کو قتل کیا۔ تم نے میرے ڈاکٹروں کو مارا تو وکیلوں کو برباد کیا۔ تمھارے خون آلود مکروہ فولادی پنجے پشاور میں ہیں تو لاہور میں بھی۔ تمھارے بدبودار دانتوں پر لہو اگر کراچی کا ہے تو کوئٹہ کا بھی۔ گلگت کا بھی، مظفرآباد کا بھی، اور تمھاری وحشت کو فاٹا سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟ میں بھی تمھاری وحشت کو جانتا ہوں، مگر خوفزدہ نہیں۔ جاؤ، میں تمھیں رد کرتا ہوں۔

تم مجھے کبھی نہ ہرا پاؤ گے۔ تم مجھے کبھی جھکا نہ پاؤ گے۔ میں تم سے ڈرتا نہیں، تم پر ہنستا ہوں۔ میں اور میرے لوگ رہیں گے۔ تم نہ رہو گے۔ تم رد کیے گئے تھے۔ رد کیے جا رہے ہو۔ رد کیے جاؤ گے۔ تو چلو پہل میری جانب سے ہی سہی: جاؤ، کہ میں تمھیں رد کرتا ہوں!

(عزیز میاں مرحوم قوال کی برسی، جو 6 دسمبر کو تھی، کی یاد میں۔ جنت مقام تھے۔ بہت محبتیں، خوشیاں اور خوبصورتیاں بانٹ گئے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments