کیا قرآن و سنت کی روشنی میں لفظ ’خدا‘ کا استعمال جائز ہے؟


\"nasir-salahuddin-1b\"

لفظ خدا کے استعمال پر بحث چلتے اکثر دیکھی ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں ہے۔ خاص طور پر اللہ حافظ کو ہی درست اور خدا حافظ کو غلط کہنے والا ایک طبقہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس طبقے کے لئے قرآن مجید کے اردو تراجم میں لفظ خدا کا استعمال بھی ان کے لئے اس لفظ کو جائز نہیں بنا سکتا۔ گزشتہ روز ’دار الافتاء، جامعۃ العلوم السلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی‘ کا یہ فتوی نظر سے گذرا ہے جو کہ ہمارے پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا۔


سوال: محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ لفظ خُدا کا استعمال کیا غلط ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے۔ اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے لکھی ہے۔

عربی میں لفظ رب، مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولاجائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔ غیاث اللغات میں ہے: خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔ ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ ربکا ہے۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتا ہے۔ اور ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کر دیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ خدا صاحب اور مالک کے معنی میں ہے۔ اور لفظ رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائے گا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں فقط واللہ اعلم۔

دار الافتاء، جامعۃ العلوم السلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی


خدا حافظ کو اللہ حافظ کہنے کا ماجرا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments