ایاز ”صادق“ اور ”صادق و امین“


قومی اسمبلی میں ایاز صادق کے بیان کے بعد سیاسی درجۂ حرارت عروج پر ہے۔ حکومت کے غیر منتخب ترجمانوں نے حسب معمول ایاز صادق، نون لیگ اور ان کے حامیوں پر ملک دشمنی، غداری اور بغاوت کے الزام لگانا شروع کر دیے ہیں اور ایاز صادق کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس بیان کے رد کے لیے دفتر خارجہ کے بجائے ڈی جی آئی ایس پی آر کو خود میدان میں آنا پڑا اور انہوں نے ایک سیاسی بیان کو الگ ہی رنگ دے کر ایک بار پھر پی ڈی ایم اور نون لیگ کے اس موٴقف کو درست ثابت کر دیا کہ مقتدر ادارے غیر سیاسی اور غیر جانبدار نہیں ہیں۔

آج پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اپنا وفد لے کر ایاز صادق سے ملنے آئے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایاز صادق نے اپنے بیان پر قائم رہنے اور مولانا نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ان کے بیان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم ملک کی گیارہ بڑی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے جسے تاریخ کی بدترین دھاندلی کے باوجود 65 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ پی ڈی ایم کے کارکنان، ووٹروں اور قیادت کو غدار قرار دینے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کی 65 فیصد آبادی غدار اور ملک دشمن ہے۔

حکومت کے منہ پھٹ اور بد زبان ترجمان معلوم نہیں کس کی ہدایات پر اپنی حکومت کی نا اہلی، نالائقی اور بد ترین کارکردگی چھپانے کے لیے دھڑا دھڑ ملک دشمنی اور غداری کے فتوے جاری کر رہے ہیں۔ جب کوئی حکومت اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے مذہب اور حب الوطنی کا سہارا لے کر باشعور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایاز صادق کے بیان کے اگلے ہی روز متنازع اور جذباتی بیانات کے لیے مشہور وفاقی وزیر فواد چودھری نے قومی اسمبلی میں جوش خطابت میں فروری 2019 میں پلوامہ حملے کو عمران خان اور اس کی کابینہ کا کارنامہ گردانتے ہوئے اپنے کھاتے میں ڈال دیا۔ اس حملے میں بھارتی فوج کے چالیس سکیورٹی اہلکار ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا تھا مگر سرکاری سطح پر پاکستانی حکومت اور مقتدر اداروں کا یہ موٴقف تھا کہ پاکستان اس میں ملوث نہیں ہے۔

مگر فواد چودھری کے اس بیان کے بعد بھارتی میڈیا میں گویا آگ لگی ہوئی ہے اور بھارتی حکومت فواد چودھری کے اس بیان کو استعمال کر کے فٹف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانا چاہتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایاز صادق کے بیان پر تلملانے اور غداری کے فتوے جاری کرنے والی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور نہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ حالانکہ فواد چودھری کا بیان ایاز صادق کے بیان کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک، قومی سلامتی کے منافی اور ملکی وقار کے خلاف ہے۔ ایک لحاظ سے فواد چودھری پلوامہ حملے کے حوالے سے بھارت کے حق میں سلطانی گواہ بن گئے ہیں۔

ادھر اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو جوں جوں دیوار سے لگانے کی کوششوں میں شدت آتی جا رہی ہے توں توں وہ بھی زیادہ آزادی سے حکومت اور مقتدرہ کے خلاف کھل کر کھیلنے لگی ہیں۔ فواد چودھری معلوم نہیں کس کی ایما پر اپوزیشن کو غدار قرار دینے کے چکر میں تھے مگر نتیجہ نکلا پلوامہ حملہ بھی گلے پڑ گیا۔ حکومت کا موٴقف یہ ہے کہ ایسے بیانات سے بھارت خوش ہوتا ہے اور اسے فائدہ ہوتا ہے۔ تین دریا بھارت کو دینے سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ سقوط ڈھاکہ سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ کارگل کی تاریخی ہزیمت سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ سیاچن کی شکست پر بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ ملک میں چار طولانی اور طوفانی مارشل لاوٴں سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ کلبھوشن اور ابھی نندن کو این آر او دینے سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ ایبٹ آباد آپریشن سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ سقوط کشمیر سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ عمران خان کے مودی کے حق میں الیکشن جیتنے کے بیان پر بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ یو این میں بھارت کو ووٹ دینے سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔ راہول گاندھی کے مودی کو انڈین عمران خان قرار دینے پر بھارت خوش نہیں ہوا تھا اور اب فواد چودھری کی شکل میں اسے سلطانی گواہ مل جانے پر بھارت خوش نہیں ہوا، بھارت اگر خوش ہوا ہے تو نواز شریف کی تقریروں اور ایاز صادق کے بیان سے خوش ہوا ہے۔

چلتے چلتے یاد آیا کہ عمران خان ماضی میں مقتدرہ، جنرلوں اور آئی ایس آئی کے بارے میں جو گراں مایہ ارشادات ارزاں فرماتے رہے ہیں ان سے تو بھارت بالکل خوش نہیں ہوا تھا۔ ان میں بہت سے بیانات ایسے ہیں جنھیں زبان تہذیب دہرا بھی نہیں سکتی۔ ایاز صادق، ایاز صادق تھا اس لیے بے ضرر سے سیاسی بیان پر اونچی بارگاہوں کے اشارے پر راندۂ درگاہ ہے وہ اگر ”صادق و امین“ اور لاڈلوں کا لاڈلا ہوتا تو اس کی ہر طرح کی ہرزہ سرائی گل افشانی شمار ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).