کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں


گزشتہ سال اسی مہینے ایم۔ اے۔ او کالج کے ایک جواں سال لیکچرر کی خودکشی کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں کالج پرنسپل کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس حوالے سے کچھ بھی سننے میں نہیں آیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ تعلیمی ادارے چاہے وہ سکولز ہوں یا کالجز ان میں تدریسی عملہ کو سربراہان ادارہ اور محکمے کی جانب سے درپیش مسائل اور بے جا دباؤ کا جائزہ لیا جاتا۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی غیر سنجیدگی، اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا نہ کرنے اور سربراہ ادارہ سے تعاون نہ کرنے کے حوالے سے اکثر بات کی جاتی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی خاصا بھیانک ہے۔

درحقیقت تعلیمی ادارے کا سربراہ جنگل کا بادشاہ ہے۔ من چاہے افراد کو جیسے مرضی نوازے۔ کوئی مہینے بعد آ کر پورے ماہ کی حاضری لگا لے تو کوئی گیارہ بجے ادارے میں قدم رنجہ فرما کر بارہ بجے واپس چلا جائے۔ اگر کوئی الم بغاوت بلند کر دے تو اس کا جینا اجیرن کرنے کے بھی بے شمار طریقے ہیں۔ سالانہ کارکردگی رپورٹ خراب کر دینا، تدریسی عملے کو کلیریکل کام پر لگا دینا، سٹاف کو ایک دوسرے سے لڑانے کی بھرپور کوشش، مختلف بے معنی الزامات کے تحت تادیبی کارروائی، ماتحت افراد کے ضروری کاغذات پر دستخط نہ کرنا یا تاخیر سے کرنا اور بے شمار دوسرے ہتھکنڈے اور نفسیاتی ٹارچر کے طریقے تعلیمی ادارے کے سربراہ کی زنبیل میں ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ اکثر عملے کو ان کی صلاحیتوں اور کام سے لگن کی بجائے ان کی معاشی حیثیت اور خاندانی اثر و رسوخ کے مطابق جانچا جاتا ہے اور اسی حساب سے ڈیل کیا جاتا ہے۔

مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ خواتین کے تعلیمی اداروں کی حالت اس حوالے سے زیادہ خراب ہے۔ خاتون سربراہ ادارہ اپنی ماتحت خواتین کو زیادہ تنگ اور زچ کرتی ہیں نسبتاً مرد کے۔ لیکن مرد اور عورت کے استثنا کے بغیر بہت قابل اور پروفیشنل لوگ اگر سربراہ ادارہ کے طور پر دیکھنے میں آئے تو وہیں ایسے لوگ بھی نظر آئے جنہیں اس سیٹ کی بجائے نفسیاتی معالج کے زیر علاج ہونا چاہیے۔ ایسے لوگ پھر ادارے کی تباہی میں جو کردار ادا کرتے ہیں اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ افسران بالا بھی کسی نزاع کی صورت میں عام طور پر سربراہ ادارہ کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں دو ہی آپشنز ہوتے ہیں۔ عدالتوں کے دھکے کھائیں یا پھر سر جھکا کر خوئے غلامی کے خوگر ہو جائیں جس میں ہم پہلے ہی ماہر ہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے بہت سے لوگ خوشامد کی چھتری تلے پناہ لیتے ہیں اور ایسی ایسی باتوں پر سربراہ ادارہ کی خوشامد ہوتی ہے کہ دل چاہتا ہے اپنا سر پیٹ لیں یا خوشامدی کا۔ یا پھر ایک اور صورت یہ ہوتی ہے کہ ماتحت عملہ آپس میں اس قدر اتحاد پیدا کر لیتا ہے کہ ادارے کے سربراہ پر حاوی ہو جاتا ہے لیکن یہ صورت کم پیش آتی ہے۔ زیادہ تر لوگ انفرادی مفاد کو ہی حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

تدریس بذات خود ایک بھاری ذمہ داری ہے اور اگر یہ ایک دل چسپ اور تخلیقی سرگرمی کی بجائے نفسیاتی ٹارچر کی صورت حال اختیار کر لے تو پھر تعلیمی ادارے میں موجود افراد بشمول طلبہ کے بلا واسطہ اور ان کے متعلقین کے بالواسطہ متاثر ہونے کی صورت میں ہزاروں افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسا میکانزم بنایا جائے جس کے ذریعے اساتذہ کی بھی بہتر طور پر شنوائی ہو سکے۔ اس حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پر بھی بہتر عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ ادارے کا سربراہ اپنے آپ کو جنگل کا بادشاہ سمجھ کر ماتحت لوگوں کی زندگیاں اجیرن نا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).