” کامیابی“


کامیابی لفظ سنتے ہی جو پہلا خیال ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ”موازنہ“ ۔ فلاں شخص فلاں سے اتنا کامیاب ہے۔ یہ موازنہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ حتیٰ کہ انسان اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔

ایک استاد محترم نے اپنی کلاس میں موجود طلبہ کو کامیابی کا مطلب سمجھانے کے لیے ایک سرگرمی پلان کی۔ تمام طلبہ کے ہاتھ میں ایک ہوا سے بھرا ہوا غبارا دیا۔ اور سب کو بتایا کہ دیا گیا وقت ختم ہونے پر جس کے ہاتھ میں غبارا سلامت رہا وہ جیت جائے گا۔ تمام طلبہ مختلف طریقوں سے اپنے ساتھ کھڑے ساتھی طالب علموں کے غبارے پھاڑنے کی کوشش کرنے لگ گئے۔ حتیٰ کہ سب کے غبارے پھٹ گئے۔

نتیجتاً استاد محترم نے چند الفاظ طلبہ کو تا حیات یاد رکھنے کو دیے۔ کہ سرگرمی شروع کرتے وقت کسی کو یہ نہیں کہا گیا تھا کہ خود کو کامیاب کرنے کے لیے ساتھ والے کو ناکام کرنا ہے۔ خود کو اوپر اٹھانے کے لیے ساتھ والے کو گرانا ضروری نہیں۔

کامیابی مختلف مراحل میں مختلف گماں کی جاتی ہے۔

بچوں کو بالغ ہو کر احساس ہوتا ہے کہ اصل کامیابی کھلونے جمع کرنا نہیں بلکہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے۔

پھر شادی ہونے پر معلوم ہوتا کہ بہترین شریک حیات کا ملنا اصل کامیابی ہے۔

پھر روزگار کے معاملات سے دل میں یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اصل کامیابی کاروبار کے وسیع ‏ہونے یا ملازمت میں پرموشن سے ہے۔

جوانی ڈھلنے پر نقطہ نظر تبدیل ہو جاتا ہے کہ اصل کامیابی تو باصلاحیت اولاد، بڑے گھر اور بہترین گاڑی کے ہونے سے ہے۔

پھر بڑھاپے میں انسان کے نزدیک اصل کامیابی کا پیمانہ بیماریوں سے بچ کر جسمانی و دماغی تندرستی کا برقرار رہنا قرار پاتا ہے۔ ‏

بالآخر جب موت کا فرشتہ انسان کو لینے آ جاتا ہے تو اصل بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کامیابی کے تمام تر دنیاوی تصور درحقیقت بہت بڑا دھوکا تھے، اصل کامیابی کا تصور تو اللہ کی نازل کردہ کتاب میں درج ہے جس کے مطالعہ کا کبھی وقت ہی نہیں مل سکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).