حکومت کو اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں


ہمیشہ سے ہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے لیکن ستر سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی پاکستان اسی طرح قائم و دائم ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی حالت دیکھ کر اب بھی یہی لگتا ہے کہ یہ نازک ترین دو ر ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کسی صورت ایک ساتھ بیٹھنے کو، ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو یا ملک کے مسائل کو مل کر حل کرنے کو تیار نہیں۔ حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت جیسے معاملے پر بھی سیاسی شخصیات اور جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آتیں۔

شاہ محمود قریشی اس معاملے پر اسمبلی میں قرارداد پیش کر رہے تھے تو اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی میں شور شرابا کیا گیا۔ پشاور میں مدرسے میں دھماکہ ہوا سیکڑوں طالب علم شہید ہوئے اور کئی زخمی بھی لیکن پھر بھی الزام تراشیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ کورونا وبا کی وجہ سے اسکول بند کرانے والی جماعتوں بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے بعد اب جلسے پر جلسہ کر رہی ہیں شاید اب کورونا چھٹی پر جا چکا ہے۔ اس تمام صورتحال پر بات کرنے کے لئے ہم نے اپنا بستہ کاپی قلم اور کیمرہ اٹھایا اور پیر یاسر سائیں کے دفتر پہنچ گئے۔ پیر یاسر سائیں موجودہ پیر صاحب پگارا کے بھانجے اور مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ سندھ میں قائم بڑے سیاسی اتحاد جی ڈی اے کے اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ یاسر سائیں گفتگو میں دیگر سیاست دانوں کی طرح جھوٹ یا یوں کہہ لیں مصلحت کا سہارا نہیں لیتے بلکہ بے باقی سے ہر بات صاف صاف بیان کر دیتے ہیں۔

یاسر سائیں حضور ﷺ کی شان میں عالم کفر کی جانب سے کی جانے والی گستاخی پر افسردہ تھے۔ بات کا آغاز ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ فرانس کی جانب سے ایسا کیا جانا عالمی امن کو تباہ اور خراب کرنے کی کوشش ہے حضورﷺ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم اس معاملے پر مسلم ممالک کو ایک ہوجانا چاہیے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے ان میں ان کے نانا پیر صاحب پگارا پیر مردان شاہ صاحب کی جھلک نظر آئی۔ پیر مردان شاہ صاحب بھی اسلام اور پاکستان کے معاملے میں بہت حساس تھے اور 1965 کی جنگ میں کامیابی میں ان کا اور ان کے حر مجاہدین کا اہم کردار بھی ہے۔

انہیں خیالات میں گم میں نے کہا پیر صاحب جس قدر ہم تقسیم کا شکار ہیں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرنے میں مصروف ہیں خدانخواستہ ایسی صورتحال میں بھارت جیسا دشمن یا دنیا کا کوئی اور ملک پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھتا ہے تو کیا ہوگا؟ کیوں کہ سیاسی اختلافات میں الجھے لوگ ایک دوسرے کے لئے دلوں میں نفرت لئے بیٹھے ہیں۔ اس سوال پر انہوں نے انتہائی اطمینان سے کہا کہ ہم دراصل جہادی لوگ ہیں اور پاکستان کا ہر فرد چاہے اس کا تعلق کسی گروہ سے کسی سیاسی جماعت سے کسی مسلک سے وہ ملک کے لئے جان دینے کو تیار ہے اور یہ بات دنیا کے تمام ممالک جانتے ہیں اس لئے وہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر ایسی غلطی کسی کی جانب سے کی بھی جاتی ہے تو قوم تمام تر سیاسی اختلاف بھلا کر اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

سیاسی صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی حکومت کے اتحادی ہیں ملک جس مشکل صورتحال میں ہے اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈالنا درست نہیں سابقہ ادوار میں جو کرپشن کی گئی وہ آج موجودہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں لیکن حکومت عوام کو ہر بات کے جواب میں یہی وجہ پیش نہیں کر سکتی حکومت کو اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہر جماعت کی اپنی پالیسی ہوتی ہے لیکن میں بطور سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرنے اور ہر وقت پریس کانفرنسوں میں مصروف رہنے کے حق میں نہیں ہوں۔

آگے بڑھنے کے لئے ارد گرد کی آوازوں کو نظر انداز کر کے منزل پر توجہ رکھنا ضروری ہوتا ہے حکومتی ذمہ داروں کو بھی اپوزیشن کے احتجاجوں اور بیانات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا ہوگا اور اپنی کارکردگی عوام کو دکھانا ہوگی۔ کیا واقعی تبدیلی آ سکتی ہے؟ میرے اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں سب سے بڑی تبدیلی حضورﷺ کے دور میں آئی اگر عوام اور حکمران چاہتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی آئے تو دونوں کو اس دور کے قوانین اور اصولوں کو اپنانا ہوگا۔

سندھ میں آپ کی پارٹی کی حکومت کب آئے گی؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ جس دن شفاف انتخابات ہو گئے آر او اور ٹی آر اوز کی جانب سے جانبداری کا مظاہرہ نہ کیا گیا اس دن سندھ سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہو جائے گا اور حکومت ہماری ہی ہوگی۔

بلاشبہ نہ تو پاکستان کا ترقی کرنا ناممکن ہے اور نہ ہی تبدیلی کا آنا لیکن عوام اور حکمرانوں کو اس معاملے میں سنجیدگی کا اظہار کرنا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں جس طرح آج حکومت گرانے کے لئے ایک ہیں اگر اسی طرح حکومت پر کارکردگی دکھانے کے لئے دباؤ ڈالنے کی خاطر ایک ہوجائیں، حکومتی ترجمان اپوزیشن کے خلاف پریس کانفرنسوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دے دیں۔ عوام میں حقیقی شعور آ جائے تو ملک میں بدلاؤ آ سکتا ہے۔ مسلمانوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی ایک ہونا ہوگا اور حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا یہ تمام مسلمان ممالک کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).