گلگت بلتستان قربانی کا بکرا آخر کب تک؟


جب پاکستان اور انڈیا 14 اور 15 اگست 1947 ء کو دو آزاد ممالک کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے تو اس وقت جموں و کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان یہ علاقے پاکستان اور انڈیا دونوں میں سے کسی کے حصے میں نہیں آئیں تھے۔ 1947 کے بعد جموں و کشمیر پر انڈیا نے مکمل قبضہ کر لیا اور وہاں کے راجا کے ساتھ معاہدہ کر کے ایک اسپیشل اسٹیٹس دے کر اپنے زیر انتظام رکھا۔ انڈیا نے یہاں کے عوام کو حق ملکیت اور حق حاکمیت بھی دے دیا۔

مرکز میں بھی نمائندگی دے دیا۔ پر 2020 کو اس سال انڈیا نے بھی جموں و کشمیر کے عوام کے مرضی کے خلاف 73 سالوں سے موجود اسپیشل اسٹیٹس کو ختم کر کے مکمل طور پر انڈیا کا حصہ قرار دیا۔ اور اپنے ساتھ ضم کر لیا۔ اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کشمیری عوام پورے کشمیر میں سڑکوں پہ نکل آئی اور اس فیصلے کے بعد مظلوم کشمیریوں پہ انڈیا کے مظالم اب تک جاری ہیں۔ جموں و کشمیر کا حال اس وقت یہی ہے۔ آزاد کشمیر کو 1948 کو قبائلی عوام اور پاکستان کی فوج نے مل کر آزاد کروایا۔

اس کے بعد آزاد کشمیر کو ایک اسپیشل اسٹیٹس دے کر پاکستان کے زیر انتظام رکھا گیا۔ آزاد کشمیر کو اسمبلی، صدر، قومی ترانہ اور جھنڈا بھی دیا گیا۔ آزاد کشمیر اور جموں و کشمیر کی عوام کو 1948 سے حق ملکیت بھی ملی اور حق حاکمیت بھی۔ آزاد کشمیر تیرا ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل علاقے کو شناخت بھی ملا اور گلگت بلتستان کے مقابلے میں کسی حد تک حقوق بھی ملے۔ اب بات کرتے ہیں گلگت بلتستان کی۔

یکم نومبر 1947 ء کو گلگت بلتستان نے ڈوگرا راج سے بغاوت کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ آزادی کے بعد سولہ دنوں تک ایک آزاد ریاست کے طور پر رہا۔ سولہ دنوں کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ پاکستان اس علاقے کو اپنے حصے میں ضم کرنے کے بجائے اس علاقے کو کشمیر کا حصہ قرار دے کر متنازع علاقہ تصور کیا۔ 23 اپریل 1947 ء میں معاہدہ کراچی کی روسے اس علاقے کو کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ ایک آزاد علاقے کو دوبارہ متنازع بنا دیا گیا۔ معاہدہ کراچی ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے قانونی طور پر بھی اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں تھا۔ پھر بھی گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھے بغیر اس معاہدے کے ذریعے گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک بنیادی حقوق کے بغیر یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ 73 سالوں سے یہاں کے عوام کے پاس نہ حق ملکیت ہے اور نہ ہی حق حاکمیت۔ باقی پاکستان کے تمام صوبوں میں اور آزاد کشمیر میں کسی نہ کسی صورت میں حق ملکیت اور حق حاکمیت موجود ہیں۔

گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے کہ یہاں کے عوام کے پاس 73 سالوں سے اب تک یہ دونوں اختیارات موجود نہیں ہیں 1947 ءسے یہاں کی عوام احساس محرومی کا شکار ہیں۔ بنیادی حقوق سے محروم ہو کر جی رہے ہیں۔ آج بھی یہاں کی اکثریت میں موجود عوام کو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں سرے سے آگاہی نہیں ہیں۔ یہاں کے جو بیدار لوگ جن کو اس خطے کے بنیادی حقوق کے بارے میں علم ہیں جب بھی وہ حقوق کے کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو شیڈول فور کے تحت جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔

جب بھی گلگت بلتستان کی حقوق کی بات آتی ہے تو ایک متنازع خطہ تصور کیا جاتا ہے۔ جب یہاں کے وسائل کی بات آتی ہے تو متنازع نہیں۔ یہاں کے سارے وسائل پہ ریاست کا مکمل حق ہے۔ یہاں کے پہاڑ، دریا، راہداری، جنگلات اور زمینیں ریاست کے ہیں۔ پر یہاں کے عوام ریاست کے نہیں ہیں۔ جب بھی حقوق کے لیے پر امن طریقے سے یہاں کے لوگ جدوجہد کرتے ہیں ریاست مخالف قرار دے کر جیلوں میں بند کیا جاتا ہیں۔ اس کی ایک مثال بابا جان اور ہنزہ کے چودہ اسیران ہیں جو آٹھ سالوں سے جیلوں میں بے گناہ قید ہیں۔ جن کے رہائی کے لیے گلگت بلتستان کے عوام سڑکوں پہ نکلے تھے۔ آخر کب تک پاکستانی حکمران گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک کرتے رہے گے۔ یہاں کے عوام کو جاگنا ہو گا۔ ورنہ پاکستان کے حکمران سو سال بعد بھی یہاں کے عوام کو حقوق اور اسپیشل اسٹیٹس دینے کے لیے تیار نہیں۔ حال ہی میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی اور اسپیشل اسٹیٹس دینے کی بات میڈیا میں زوروشور سے چل رہی ہیں۔

ایسے میں آزاد کشمیر کے عوام اور پاکستان کے کچھ سیاستدانوں کو یہ اعتراض ہے کہ گلگت بلتستان کو حقوق دینے اور صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچے گا۔ اس لیے اس علاقے کو نہ صوبہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بنیادی حقوق اور شناخت دیا جا سکتا ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے خطر جس طرح 73 سالوں سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں بھی اسی طرح اندھیرے میں ہی رکھا جائے۔

شاید یہاں کی عوام نے 1947 ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے گناہ کیا تھا جس کی اتنی بڑی سزا دی گئی اور یہ سزا 73 سالوں سے اب تک جاری ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں سے کوئی پوچھے کہ آپ لوگوں نے گلگت بلتستان کے لیے کون سی قربانیاں دیے ہیں؟ اب تک یہاں کے لوگوں نے گلگت بلتستان کے بنیادی حقوق اور مسائل کے لیے کبھی آواز اٹھائی ہے؟ خود آزاد کشمیر اسپیشل اسٹیٹس بھی لے لے اور اپنے مفادات بھی حاصل کریں۔ ریاست پاکستان سے مفادات حاصل کرتے رہے۔

کسی کشمیری لیڈر اور سیاستدان نے آج تک گلگت بلتستان کی احساس محرومی اور بنیادی حقوق کے لی آواز اٹھایا ہیں؟ جب آزاد کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس دے دیا گیا اس وقت کشمیریوں اور ریاست پاکستان کو یہ یاد کیوں نہیں آیا کہ گلگت بلتستان بھی تو کشمیر کا حصہ ہے اور ایک متنازع علاقہ ہے تو اس لیے مسئلہ کشمیر حل ہونے تک گلگت بلتستان کو بھی اسپیشل اسٹیٹس دے دیا جائے۔ افسوس 73 سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں دیا گیا۔ گلگت بلتستان نے مسئلہ کشمیر کی خطر آزاد ہونے کے باوجود بھی 47 ء سے اب تک اتنی بڑی قربانی دی ہے تو آزاد کشمیر نے گلگت بلتستان کے لیے کون سی قربانی دی ہے؟

کوئی بتا سکتا ہے؟ عجیب منطق یہ ہے کہ 13 ہزار مربع کلومیٹر والے علاقے کو اسپیشل اسٹیٹس دینے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ 73 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل علاقے کو اسپیشل اسٹیٹس دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ آخر کب تک گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے نام پہ قربانی کا بکرا بنایا جائے گا؟ یہ ظلم اور زیادتی مزید کتنے عرصے تک جاری رہے گی؟ کیا 73 سال بعد بھی کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو تب بھی یہاں کے عوام اس مسئلے کے نام پہ بنیادی حقوق اور اپنے شناخت سے محروم ہی رہے گے؟

انڈیا نے تو اسپیشل اسٹیٹس بھی ختم کر کے مکمل طور پر کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے دیا۔ گلگت بلتستان کو اسپیشل اسٹیٹس دینے میں بھی مسئلہ ہے۔ اب یہاں کے عوام مزید قربانی کا بکرا بنے کے لیے تیار نہیں۔ بس بہت ہو گیا مزید نہیں اب یہاں کی عوام پہلے کی نسبت زیادہ باشعور ہو چکی ہے۔ جو اپنے بنیادی حقوق اور شناخت کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ اب یہاں کے عوام کو مسئلہ کشمیر کے نام پہ مزید دھوکے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔

حکومت پاکستان اور ریاست پاکستان کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کو اگر صوبہ نہیں بنا سکتے ہے تو ایک اسپیشل اسٹیٹس دے دیا جائے اور بنیادی حقوق جو یہاں کی عوام کا بنیادی اور انسانی حق ہے جو کہ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے یہاں کے عوام کو بنیادی حقوق دے دیا جائے اور یہاں کی احساس محرومی اور مایوسی کو ختم کیا جائے۔ یہ خطہ ایک حساس علاقہ ہے۔ پاک چین راہداری اس علاقے کے سینے کو چیرتی ہوئی گزرتی ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں کے عوام میں موجود احساس محرومی کو دور کیا جائے۔

یہاں کے عوام کو بنیادی حقوق دینے میں ہی پاکستان کی مضبوطی ہے۔ مزید اس علاقے کو قربانی کا بکرا بنانا پاکستان کے بھی مفاد میں نہیں ہو سکتا اور گلگت بلتستان کے بھی مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جلد سے جلد اس علاقے کو بنیادی حقوق دینا ہی دینا ہو گا۔ یہاں کی احساس محرومی کو ختم نہ کیا گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ حساس ہوتا جائے گا۔ جو کہ پاکستان اور گلگت بلتستان کی سلامتی کے لیے ہر گز ٹھیک نہیں۔ آخر کب تک یہ ظلم و زیادتی جاری رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).