گلگت بلتستان کی آزادی اور حقوق


پاکستان کا شمالی علاقہ جو گلگت بلتستان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے یہ کشمیر کے سکھ مہاراجہ کے ماتحت ایک گمنام علاقہ تھا۔ موجودہ پاکستان سے اس زمانے میں رابطہ کرنے کے لئے کوئی زمینی راستہ موجود نہیں تھا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کا آنا جانا مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ تھا۔ وہ تعلیم، جاب کے لئے کشمیر جاتے اور اسی طرح بہت سے کشمیری بھی تجارت کے سلسلے میں گلگت آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے پو رے علاقے کو کنٹرول کر نے کے لئے ایک سکھ گورنر ہوتا تھا۔ گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں ڈوگرہ فوج کی چھاؤنیاں تھیں جن میں ہائی کمان بھی سکھ یا ہندو ہوتے اور اس آرمی میں مسلمان سپاہیوں کی تعداد نہ ہو نے کے برابر تھی۔

گلگت بلتستان کے یہ علاقے خوبصورت وادیاں، باغات، سبزہ، دریا، ندی نالوں اور دروں کے حسین مناظر سے بھر پور ہیں اور دفاعی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ چین، ترکستان اور انڈیا کی سرحدیں اس کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ شاہراہ قراقرم اور سی پیک کی وجہ سے اس خطے کی معاشی اور دفاعی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

جب 14 اگست 1947 کو پاکستان معارض وجود میں آیا تو زمینی راستے نہ ہو نے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس زمانے میں کوئی ذرائع ابلاغ بھی نہیں ہوتے کہ فوراً خبر پہنچ جائے۔ تقسیم میں یہ بات طے تھی کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان بھی اس وقت ایک نوزائیدہ ریا ست تھی اس کے پاس نہ اتنی فوج، نہ اتنے وسائل تھے جس سے ان دوردراز کے علاقوں میں رہنے والوں کی مدد کی جاتی جب لوگوں کو اطلاع ملی کہ پاکستان آزاد ہوا ہے تو ان لوگوں نے اپنی مدد اپ کے تحت انتہائی مشکل حالات میں ایک منظم ڈوگرہ فوج کے ساتھ جنگ لڑ کر اپنے علاقے کو آزاد کروایا۔

جنگ آزادی کے ہیرو کرنل مرزا حسن نے جو برٹش آرمی میں کیپٹن تھے، مسلم سپاہیوں اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر گلگت کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرا نے کا فیصلہ کیا اور گلگت میں ڈوگرہ گورنر برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے آزادی کا اعلان کر دیا۔ کرنل مرزا حسن خود گلگت کے نگران اعلی بن گئے۔ جمہوریہ گلگت کے نام سے یہ علاقہ 16 دن تک آزاد ریاست کی حیثیت سے قائم رہا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا۔

ہمارے گاؤں میں بھی ڈوگرہ فوج کی چھاؤنی تھی جو اب این۔ ایل۔ آئی سینٹر ہے اس چھاؤنی میں ڈوگرہ راج کے فوجی کافی تعداد میں موجود ہوتے تھے۔ جب گلگت میں آزادی کی تحریک چلی تو ہمارے گاؤں اور چھاؤنی میں بھی طرح طرح کی افواہیں پھیل گئیں کہ ایک بڑی فوج پہاڑوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو نے والی ہے کسی نے کہا یہ مسلمان فوج ہے کسی نے کہا یہ ڈوگرہ فوجیں ہیں۔ ان حالات میں گاؤں والوں میں بھی خوف و دہشت پھیل گئی اور وہ اپنے بچوں اور عورتوں کی حفاظت کے لئے ان کو پہاڑی کے دامن میں نالے کے پاس ایک درے میں لے گئے۔

جب ہندو اور سکھ سپاہیوں نے لوگوں کو گاؤں سے بھاگتے دیکھا تو انہوں نے بھی اس خبر کو سچ سمجھا اور خود بھی اس نالے کی طرف بھاگنے لگے جہاں گاؤں والے چھپے تھے۔ میری پھوپھی جان اس وقت 15 سال کی تھیں بتاتی تھیں کہ جب ڈوگرہ فوج ہتھیار اٹھائے نالے کے پاس ائی تو گاؤں والے ڈر گئے کہ یہ لوگ ان کو نقصان نہ پہنچائیں لوگوں کو نہتا دیکھ کر سپاہیوں نے اپنے کپتان سے کہا ان بال بچوں کو مار دیتے ہیں تو ان کے کپتان نے منع کر دیا کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں اور ہمارے ساتھ کچھ برا نہیں کیا ہے۔ پھر وہ سب لوگ کشمیر اور سکردو جانے کے لئے پہاڑی کے پیچھے جنگل میں چلے گئے۔ سردی کا موسم اور دشوار گزار راستہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم لوگ اپنی جانیں بچا کر سکردو پہنچنے میں کامیاب ہوئے بعد میں ان فوجیوں کا مسلم سپاہیوں کے ساتھ تبادلہ ہوا۔

آزادی کے بعد سے اب تک اس علاقے کو پسماندہ رکھا گیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ بلکہ اس سا رے علاقے کو ایک وفاقی وزیر کے ماتحت کر دیا جاتا ہے جو گلگت بلتستان کا نمائندہ بھی نہیں ہو تا ہے وہ کیسے اس علاقے کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ 2009 سے پہلے یہ علاقہ فاٹا اور فانا کے ساتھ الحاق تھا فاٹا والوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی اور اثر و رسوخ کی وجہ سے سا رے کوٹے کی سیٹیں اور نوکریاں فاٹا والوں کے حصے میں چلی جاتیں تھیں کوئی اپنا نمائندہ نہ ہو نے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے لوگ اپنے اس حق سے بھی محروم رہے ہیں۔ لوکل ڈپارٹمنٹس کے سربراہ بھی علاقے سے نہیں ہوتے وفاق سے بھیجے جاتے تھے لوکل لوگوں کو 19,20 گریڈ سے اوپر ترقی نہیں دی جاتی تھی۔

یہ علاقہ سی پیک کا کاریڈور ہے۔ لیکن ابھی تک گورنمنٹ نے یہاں کے مقامی لوگوں سے سی پیک کے تجارتی زونز اور ٹریڈ سٹاک ڈپوز کے با رے میں نہ ہی مشورہ کیا ہے اور نہ ہی تجاوزات مانگی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں کے نمائندوں سے گورنمنٹ اس سلسلے میں گفت و شنید بھی کر رہی ہے اور ان کو سی پیک کے معاشی پیکیج بھی دے رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ سی پیک کی وجہ سے اس علاقے میں بھی معاشی ترقی کے کیا اثرات ہوں گے۔

پورے پاکستان کی زرعی بقا دریائے سندھ سے منسلک ہے جو اس علاقے سے نکلتا ہے اس میں شروع سے ڈیم بننے چاہیے تھے لیکن نظر انداز کر دیا گیا اب بھاشا ڈیم بن رہا ہے تو یہ ایک اچھا وژن ہے ساتھ ساتھ بو نجی ڈیم بھی بننا چاہیے یہ ایسے منصوبے ہیں جس سے نہ صرف اس پسماندہ علاقے کی بلکہ پو رے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔

جب 2009 میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو صدر آصف زرداری نے اس علاقے پر خاص توجہ دی اور گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر جاری کر نے کے ساتھ ساتھ کئی اصلاحات کیں۔ یہاں پر ہمیشہ سے تعلیم، صحت، بے روز گاری اور انفراسٹرکچر کے مسائل رہے ہیں کوئی بڑا ہاسپٹل، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج اور ٹیکنیکل کالج نہیں ہے لوگوں کو علاج و معالجہ اور تعلیم کے سلسلے میں بہت سی مشکلات اٹھانی پڑتی ہے۔

مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا کر پو رے آئینی اور شہری حقوق دیے جائیں تاکہ یہ علاقہ بھی ترقی کر سکے۔ لیکن آج تک اس پسماندہ علاقے کو مقبوضہ کشمیر کی طرح متنازعہ فیہہ سمجھ کر صوبہ بنانے میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ یہاں کے لوگوں نے خود جدوجہد کر کے آزادی حاصل کی ہے اور خود استصواب رائے سے پاکستان میں شامل ہو گئے ہیں پھر اس علاقے کو صوبہ نہ بنانا اور متنازعہ قرار دینا اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی اور زیادتی ہے۔ صوبہ بنا کر پو رے آئینی حقوق دے کر ہی اس علاقے کی پسماندگی اور محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).