عوام کو جیب کتروں سے کون بچائے گا؟


حکومت ایک عرصے سے مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے تو بہت کر رہی ہے، مگر عملی طور پر کچھ بھی بہتر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے، آئے روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، عوام کی قوت خرید بالکل دم توڑ چکی ہے، روز مرہ اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں رات کو کچھ اور دن کے وقت کچھ ہو جاتی ہیں، رہی سہی کسر فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے بلوں میں نکالی جا رہی ہے، گندم، آٹا، چینی، سبزیوں، دالوں کی قیمتوں نے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔

اس صورتحال میں عوام کی حالت کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں، والی ہو گئی ہے۔ عوام کے پاس داد و فریاد کے لئے کوئی فورم نہیں، عوامی نمائندے داد رسی کی بجائے منظر سے غائب ہیں۔ کابینہ اجلاس میں وفاقی وزراء نے بیوروکریسی پر سارا ملبہ گرا کر معصوم بننے کی کوشش کی ہے جو سراسر حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اگر بیوروکریسی ہی بڑی رکاوٹ ہے تو وزرا کا کام ہی رکاوٹیں دور کرنا ہے۔ اگر کسی بھی اتھارٹی کی طرف سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافے، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی، گیس کے نرخ بڑھانے کی تجویز آتی ہے تو وزراء اس کے سامنے ڈٹ کیوں نہیں جاتے اور عوام دشمن اقدامات کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس بیوروکریٹس نے نہیں، وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے جانا ہے، اس لیے ذمہ داریوں سے جان چھڑانے اور پہلو بچانے کی بجائے عوام کی ترقی و خوشحالی کے موثر اقدامات کیے جانا ہی وقت کا تقاضا ہے، محض باتوں اور خیالی پلاؤ سے عوام کی بھوک مٹے گی نہ مہنگائی کا سد باب ہو سکے گا۔

یہ امر واضح ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی پر قابو پانا ہے، حکومت کے فوری اقدامات میں ایک اقدام ٹائیگر فورس کا قیام تھا کہ جو مہنگائی پر قابو پانے میں مدد کرے گی، لیکن یہ فورس ادارہ برائے پائیدار ترقی پر قابو نہیں پا سکی، جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے۔ رپورٹ میں بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان کا ذکر کیا گیا ہے، جس کے مطابق بنگلا دیش میں 5.9 فیصد، بھارت میں 7.34 فیصد اور پاکستان میں 9 فیصد مہنگائی ہے، یہاں تک کہ چینی، پیاز اور آٹا بھی ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ مہنگا ہے۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعویدار مہنگائی کا ایشین ٹائیگر بنا بیٹھے ہیں او ر مافیاز کو نہ چھوڑنے کے اعلانات کرتے ہیں، اس میں ایک نیا اضافہ وزیر اعظم نے کیا ہے کہ مافیا اور اپوزیشن والے جیب کترے ہیں، یہ سب جیل جائیں گے، لیکن یہ نہیں بتا یا جاتا کہ آخر کب ایسا ہوگا۔

اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم کا کہنا بجا ہے کہ تمام جیب کترے خود کو احتساب سے بچانے کے لئے اکٹھے ہو کر شور مچا رہے ہیں، ملک کے قومی خزانے کے ساتھ عوام کو بھی انہیں جیب کتروں نے لوٹا ہے، لیکن شناخت پریڈ میں چہرے واضح ہونے کے باوجود مجرم آزاد دندناتے کیوں پھرتے ہیں۔ دراصل ہر دور اقتدار میں جیب کتروں کو بچانے میں ذاتی مفادات اور مصلحتیں آڑے آتی رہیں، آج بھی کچھ مجبوریاں ہی آڑے آ رہی ہیں، اس میں حکمرانوں کا کوئی نقصان نہیں، کیو نکہ کسی کی جیب کٹے نہ کٹے، عوام کی جیب ضرور کٹ جاتی ہے۔

ملک میں کوئی مسئلہ ہو، جنگ کا خطرہ ہو یا کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار تباہی کا شکار ہوں، جیب امیر کی نہیں غریب کی کاٹی جاتی ہے۔ عوام حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ ملک میں آٹا، چینی، دالیں، گھی، دودھ، ادویات، بجلی وغیرہ ہی کیوں مہنگی ہوتی ہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ انہیں غریب استعمال کرتے ہیں، امیروں کے استعمال والی چیزوں پر 260 فیصد ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا؟ کیو نکہ پارلیمنٹ میں غریب عوام کا حقیقی نمائندہ موجود ہی نہیں ہے، وہاں تو غریب کی نمائندگی کے بھیس میں اشرافیہ اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بناتے ہوئے جیب کتروں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔

اس صورت حال کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے جتنے بھی حکمران آئے واقعی دھوکے باز تھے جو عوام کے لئے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے یا پھر اس ملک میں ایسے طاقتور مافیاز ہمیشہ سے موجود رہے ہیں کہ جو حاکم وقت کو بے بس کر دیتے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی عوام ریلیف نہیں دے سکتے، یہی بے بسی وزیر اعظم عمران خان کی بھی نظر آ رہی ہے، یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں عوام کے خلاف ایک بہت بڑا اور طاقتور ہاتھ سرگرم ہے جو محروم اور مراعات یافتہ طبقوں کی تقسیم برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ہر ایسی کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے جو عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے کی جا رہی ہے۔

اس کرپٹ طاقتور مافیا کا سدباب حکومت ہی کی ذمہ داری ہے، اس وقت حکومت مہنگائی کو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، مگر پنجاب کے سہولت بازاروں کے سوا کہیں کوئی چیز نارمل ریٹ پر نہیں مل رہی ہے۔ حکومتی وزراء مہنگائی کا ذمہ دار بیورو کریسی کو ٹھہرانے کی بجائے اپنے فیصلوں، اقدامات اور منصوبہ بندی کی ذمہ داری لینی چاہیے، مشترکہ اقدامات ہی سے اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پانا ممکن ہوگا، مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتی، ہر فریق اس کا ذمہ دار ہے۔ اس ملک میں کون جیب کترا نہیں، سب ہی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، تاہم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو جیب کتروں اور ان کے سہولت کاروں سے بچائے، کیو نکہ غریب کی جیب کوئی بھی کاٹے حکومت ہی عوام کو جوابدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).