”اگر آپ نے فوج پر تنقید کرنی ہے تو بھارت چلے جائیں“


یہ وہ جملہ جو انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیاں، سیاستدانوں کو عرض ہر سوچنے سمجھنے اور سوال اٹھانے والے پاکستانی شہری کو سننا پڑتا ہے۔ اکثر ٹرولز پاکستان اور اسلام کے خلاف نام نہاد سازشیں کرنے والے غداروں کو ملک سے نکالنے اور جو باہر مقیم ہیں انہیں پاکستان واپس لانے کی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سازش اور غداری اور اسلام دشمنی سے مراد سوال اٹھانا، آئین کی بالادستی کی بات کرنا، مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بات کرنا وغیرہ ہے۔

چند دن قبل وزیر داخلہ برگیڈئیر اعجاز شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جو لوگ فوج پر تنقید کرتے ہیں وہ بھارت چلے جائیں۔ ان کا یہ بیان کسی ایک سیاسی جماعت کے بیانیے سے متعلق تھا لیکن ساتھ ہی انہوں اس سیاسی جماعت کے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے جو مثال دی وہ نہ صرف ان کے کے خلاف بلکہ فوج کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے جس سے نہ صرف سنجیدہ نوعیت کے سوالات نے جنم لیا اور تنقید کا راستہ کھول دیا بلکہ اس بیانیے پر بھی مہر ثبت کردی جو دہشتگردی کے پیچھے با اختیار وردی اور ریاستی سرپرستی کو قرار دیتا ہے۔

پاکستان میں فوج پر تنقید کو صرف غداری اور غیر ملکی سازشوں کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ فوج پر تنقید کی آئین پاکستان میں ممانعت نہیں ہے اور کسی بھی مہذب معاشرے میں تنقید پر پابندی نہیں ہوتی، جس معاشرے میں تنقید پر پابندی ہو وہ معاشرے ایک قبرستان کی مانند ہوتا ہے، اس معاشرے کی ترقی اور لوگوں کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ معاشرہ تنزل کی جانب رواں رہتا ہے لوگ ذہنی بانجھ پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ کیا فوج پر ہونے والی تنقید بلاجواز ہے اس کا جواب نہیں میں ہے۔
پاکستان کی فوج وہ محکمہ ہے جس نے خود کو ریاست کے متبادل کے طور پر متعارف کرا رکھا ہے۔ یہ وہ محکمہ ہے جو اپنے آئینی مینڈیٹ سے حد درجہ تجاوز کر چکا ہے۔ ملک کے آئین سے مقدس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چار بار اس ملک کے آئین کو ملٹری ڈکٹیٹرز نے پامال کیا اور نہ صرف یہ بلکہ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتے رہے حالانکہ وہ اس ملک کے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔

عوام کے ٹیکس کا پیسے کا استعمال کہاں ہو رہا ہے اس کا تعین کرنے کے لیے اس محکمہ کا آڈٹ نہیں ہوتا۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت ان گنت کاروبار ہیں جن پر کوئی ٹیکس نہیں دیا جاتا، درجنوں ایسی کمپنیاں ہیں جو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ ملکی معیشت کے آدھے سے زیادہ حصے پر اس محکمے کا قبضہ ہے۔

ہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے یہ محکمہ اور اس سے جڑے افراد۔

بنگلہ دیش، بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں ہونے والے جنگی جرائم پر جتنے بھی پردے ڈالیں جائیں چھپ نہیں سکتے، چاہے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو عوام سے چھپایا جائے یا پھر پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کا میڈیا بلیک آؤٹ یہ سب ہتھکنڈے حقائق کو آشکارا ہونے سے نہیں روک سکتے۔

نہ ہی دہشتگردوں کی سرپرستی کسی سے ڈھکی چھپی ہے چاہے اسامہ بن لادن کو پناہ فراہم کرنا ہو یا پھر ملا برداران اور گلبدین حکمتیار کی مہمان نوازی، یا پھر احسان اللہ احسان جیسے دہشتگرد کا بغیر کسی ٹرائل کے فرار ہونا۔

کبھی حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور کبھی مارشل لاء لگانا، محکمہ کے سابق ملازم کے خلاف سنگین غداری کے کیس میں عدالتی فیصلے کو مسترد کرنا، کبھی محکمہ کے سربراہ کا اپنی ڈاکٹرائن متعارف کرانا یہ وہ سب باتیں جن پر تنقید کی جاتی ہے اور حساب مانگا جاتا ہے۔ اور یہ تنقید صد فیصد جائز ہے کسی طور بھی ملکی سلامتی کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے فائدے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).