گلگت بلتستان الیکشن 2020: متوقع نتائج


گلگت بلتستان کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ تقریباًپانچ ماہ سے نگران حکومت یہاں کی سیاسی اور انتظامی معاملات دیکھ رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات ہمیشہ سے دلچسپ رہے ہیں۔ اس کی وجہ ماضی کے انتخابات پر وفاق، وفاقی سیاسی پارٹیاں، مذہبی پارٹیاں، قوم پرست پارٹیوں کا اثرانداز ہونا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات کو سمجھنے کے لئے تاریخ کا سہارا لینا ضروری ہے۔

گلگت بلتستان کے انتظامی امور جب معاہدہ کراچی کے تحت 1949 میں وفاق کے سپردہوئے تو ایک تحصیلدار کو یہاں کے انتظامی امور سنبھالنے بھیجا گیا، ویلج ایڈ کے نام سے ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا، 1969 میں مشاورتی کونسل کا قیام عمل میں آیا اوراس خطے کو شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا، 1970 میں عام انتخابات ہوئے اور 1971 میں ایف سی آر کا خاتمہ کیا گیا، 1975 میں ایڈوائزری کونسل کا نام تبدیل کر کے ناردرن ایریاز کونسل رکھ دیا گیا۔

1983 اور 1987 میں انتخابات ہوئے۔ 1994 میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کا عہدہ متعارف کیا گیا۔ 2000ء کو ناردرن ایریاز کونسل کا نام تبدیل کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل رکھ دیا گیا۔ پھر 2004 میں انتخابات منعقد ہوئے، 2007 میں کونسل کا نام تبدیل کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز اسمبلی رکھ دیا گیا۔ 2009 میں اسے گلگت بلتستان اسمبلی کا نام دے کر جی بی کونسل متعارف کرائی گئی۔ 2015 میں پھر الیکشن ہوئے اور 2018 آرڈر تیار کیا گیا اسے یہاں کے عوام نے رد کیا تو کچھ ترمیم کے ساتھ دوبارہ آرڈر 2019 کے ساتھ بحال کیا گیا۔

گلگت بلتستان کے اس بیان کردہ تاریخ میں سیاسی، قانونی، تکنیکی مراحل کے دوران سارے فیصلے وفاق میں کیے گئے ہے۔ اور اگر وفاق میں نہیں تو گلگت بلتستان میں موجود بیوروکریسی کے ذریعے سے سارا نظام چلایا گیا ہے۔ جو کہ ان 73 سالوں سے اس خطے اور 20 لاکھ عوام کے ساتھ زیادتی ونا انصافی ہے۔

اب چونکہ 15 نومبر کو انتخابات ہونے جا رہا ہے۔ اور ماضی کی طرح وفاقی سیاسی پارٹیوں کے نمائندے اپنے پارٹی الیکشن کمپین کے لئے گلگت بلتستان میں موجود ہے۔

گلگت بلتستان میں اس وقت تین بڑی سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہے۔ یہ وفاقی سیاسی پارٹیاں جن میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف شامل ہے۔ ان میں سے نون لیگ اور پی پی پی نے گلگت بلتستان میں حکومت کی ہے۔ اور تحریک انصاف پہلی مرتبہ قسمت آزمائی کرے گی۔ روایت یہی رہی ہے کہ وفاق میں جو پارٹی برسر اقتدار ہو وہی پارٹی گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ پچھلے 2009 اور 2015 کے انتخابات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام اسی پارٹی کوووٹ دیتے ہے جو وفاق میں برسراقتدار ہو۔

گلگت بلتستان کے عوام یہاں کے چیدہ چیدہ مسائل کے حوالے سے نون لیگ اور پی پی پی کو کئی بار آزما چکے ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی جان چکے ہے کہ ان کے حلقے سے منتخب شدہ نمائندے اسمبلی میں پہنچ کر کس طرح سے عوام کے لئے قانون سازی اور ان کے مسائل کو کیسے حل کرتے ہیں، یقیناً اس کا جواب مایوسی اور نفی میں ہے۔ اب اگر پرانی روایت برقرار رہ کر وفاقی حکمران پارٹی تحریک انصاف گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یقین جانیے ان کو پھر عوام سے وعدے اور توقعات پر پورا اترنا لازم ہوگا۔ اس کی کئی وجوہات ہے۔ جس میں سب سے پہلے عوام اب ماضی کے الیکشنز میں یہ جان چکے ہے کہ ان کے نمائندے دوران انتخابات بڑے بڑے دعوے کر کے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ اور اسمبلی پہنچ کر سب بھول جاتے ہے اور نتیجہ صفر۔

دوسرا یہ کہ تحریک انصاف کے ساتھ زیادہ تر نوجوان طبقہ شامل ہے۔ یہ جو وعدے تحریک انصاف نے کیے ہیں اور ابھی انتخابات سے پہلے کر رہی ہے، اگر اس پر عمل نہیں کر سکا تو پھر تحریک انصاف کی شامت ہوگی کیونکہ اس کے ساتھ نوجوان طبقہ ہے۔ اور اگر یہ نوجوان طبقے نے آواز اٹھائی یا رد عمل دکھائیں تو تحریک انصاف کو گلگت بلتستان میں اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنا مشکل ہوگا۔

تیسرا معاملہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی ہے جو ہر حکومت کے لئے چیلنج رہا ہے۔ نون لیگ اور پی پی پی نے اپنے دور حکومت میں اس پر وعدے کر کے نتیجہ کچھ خاص نہیں نکلا ہے۔ اس لئے عوام میں مایوسی ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف وفاق میں دبے الفاظ میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دینے کے حوالے سے بیانات جاری کیا جا چکا ہے۔ اور اگر یہاں کے لوگوں کو صیح معنوں میں مستقل بنیادی حقوق دلوا دے گا تو اگلی حکومت بھی انھی کی ہوگی۔ اگر یہ بیانات صرف الیکشن جیتنے کی حد تک ہے تو یقین جانئیں اس کا نقصان مستقبل میں تحریک انصاف ہی کو ہوگا۔

مسلم لیگ نون اور پی پی پی کی بات کی جائے تو یہ تحریک انصاف کے مقابلے میں تجربہ کا راور سیاسی جوڑ توڑ میں ماہر ہے۔ ابھی تک کے صورتحال سے یہ واضح ہے کہ تحریک انصاف بھاری اکثریت سے الیکشن نہیں جیت سکتی بلکہ نون لیگ، پی پی پی اور مذہبی جماعتیں ان کے لئے مشکلات پیدا کریں گے اور کر رہے ہیں۔ پھر مذہبی جماعتوں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی اس لیکشن پر اثر انداز ہوں گے اور یہ پچھلے الیکشنز میں بھی اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

گو کہ تحریک انصاف نے مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ مل کر کچھ حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیا ہے۔ تحریک انصاف کی اس حکمت عملی سے اسے وہ سیاسی فائدے حاصل نہیں ہوں گے جہاں تک اس نے یہ حساب کتاب وفاق میں بیٹھ کر کیا گیا ہے۔ ابھی تک کی سیاسی صورتحال کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اتنی مضبوط دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی وجہ پارٹی کے اندر آپس کے اختلافات ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اس کے مقابلے میں مضبوط دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون اور آزاد امیدوار بعض حلقوں میں مضبوط ہے۔ اور ابھی کے اندازے کے مطابق آئندہ حکومت گلگت بلتستان میں مخلوط حکومت ہوگی۔

گلگت بلتستان کی تاریخ میں اگر سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کو دیکھا جائے تو ان جماعتوں یا پارٹیوں نے سیاسی کارکن اور سیاسی لوگوں کو ضرور پیدا کیا ہے۔ مگر سیاسی لیڈرز ابھی تک پیدا نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہے مگر اصل وجوہات یہ سیاسی جماعتیں ہی بتا سکتی ہیں۔ سیاسی لیڈر کا مقام اور پرواز بہت بلند ہے وہ بلندی سے زمینی حقائق کو دیکھ کر سمجھ کر پھر فیصلہ کر کے سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ مگر وہ وقت ضرور آئے گا کہ گلگت بلتستان کے سیاسی لیڈر وفاق میں پاکستان کے فیصلہ سازی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

اسی حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں انتخابات 2020 کے لئے جن جن امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائی تھیں۔ ان میں سے بعض ایسے امیدوار بھی ہے جن کو جی بی کونسل اور جی بی اسمبلی میں فرق کا نہیں پتہ۔ اور یہ لوگ صرف سوشل میڈیا پر اپنی مشہوری کے لئے یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ وفاق اسی اسی لئے ہمیشہ بتایا جاتا رہا ہے کہ گلگت بلتستان میں ابھی تک سیاسی بلوغت نہیں آئی ہے۔

گلگت بلتستان میں جب سے تیسری بڑی پارٹی تحریک انصاف نے قدم رکھا ہے تو سیاسی وابستگی اور سرگرمی کے حوالے سے ایک مثبت عمل دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ یہ کہ نوجوان طبقہ سیاست کی جانب راغب ہوا ہے۔ اور جوش ولولے سے بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو رہا ہے۔ یہ گلگت بلتستان میں نوجوان نسل کا اچھا اقدام ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اچھی قیادت ملے جو انہیں ماضی کے روایتی، انتقامی، علاقائی اور مسلکی سیاست سے دور رکھ کر آنے والے دور کی سیاست اور خدمات کے لئے تیار کریں۔

ولاد یمیر لینن کا قول ہے کہ ”فکری انقلاب کے بغیر سماجی انقلاب ممکن نہیں“ اب چونکہ 2020 کا الیکشن قریب ہے لہذا گلگت بلتستان کے لوگ اپنی سوچ، فکر، عمل کو مثبت رکھ کر آنے والے پانچ سالوں کے لئے اپنے ووٹ کا استعمال دانشمندی، حق اور جائز طریقے سے کریں تاکہ آپ کا ضمیر مطمئن ہوں اور جس نمائندے کو ووٹ دے رہے ہو اس کا ضمیر جاگ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).