’ہم سب کے لیے لکھنے والوں سے چند گزارشات


’ہم سب‘ آزادی اظہار کے لیے ایک کھلا پلیٹ فارم ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ادارے کو مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لکھنے والوں کا اعتماد بھی حاصل ہوا ہے اور پڑھنے والوں سے بھی پذیرائی ملی ہے۔ یہاں کچھ لکھنے والے کہنہ مشق ہیں اور کچھ ابھی اپنے تجربے کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ’ہم سب‘ کا عملہ بھی محدود ہے اور وسائل بھی۔

ہم ہر طرح کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاہم ہماری صحافت کے موجودہ معیارات کے پیش نظر کچھ نکات کی نشان دہی بہت ضروری ہے۔ یہ کسی لکھنے والے پر ذاتی تنقید نہیں۔ اردو میں لکھنے والے مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی نے مذہبی مدارس میں تعلیم پائی ہے ، کوئی سرکاری تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوا ہے اور کچھ لکھنے والے مغربی طرز کے اداروں سے مستفید ہوئے ہیں ۔ ہمارے کچھ لکھنے والوں کا ذہنی رجحان قدامت پسندی کا ہے ۔ ہمارے کچھ لکھنے والے جدید رجحانات رکھتے ہیں۔ ہم ان سب کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں۔

ہمارے ہاں اب اخبارات کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔ اسی طرح ٹیلی ویژن چینل بھی ہماری رائے اور انداز بیان پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے صحافت کے ایک بنیادی منصب کو ختم کر دیا ہے جسے ادارتی چھلنی کہا جاتا تھا۔ صحافت میں ادارتی عملے کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ تحریر کے زبان و بیان کا جائزہ لے ۔ املا کی غلطیوں پر نظر رکھے۔ حقائق کی درستی معلوم کی جائے۔ دلیل کو منطقی اصولوں پر پرکھا جائے۔ سوشل میڈیا پر ہم اپنی تحریر براہ راست پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ لکھنے والا ہمیشہ ایک کیفیت اور موقف کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ کسی تحریر کو پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ایک ایسا فرد ضرور دیکھ لے جو متعلقہ کیفیت اور موقف سے بے نیاز ہو۔ یہ مدیر کا منصب ہوتا ہے۔اگر کوئی ادب میں نوبل انعام یافتہ ادیب بھی ہو تو اس کی تحریر کو بھی نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ادب میں مدیر کا ادارہ کبھی مستحکم نہیں ہو سکا۔ صحافت میں ادارتی عملہ موجود ہوتا تھا۔ سوشل میڈیا نے اس کی ضرورت بھی ختم کر دی ۔ اب ہم جو چاہتے ہیں، لکھتے ہیں ۔ اور جس انداز میں چاہتے ہیں، لکھتے ہیں اور پھر فخر کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں کے پرزے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔ یہ اچھی صحافت کا نشان نہیں۔

اس سے قطع نظر کہ لکھنے والے کا موقف کیا ہے، یہ تو واضح ہے کہ جس زبان میں لکھا جا رہا ہے گرامر کے اعتبار سے وہ زبان درست لکھنی چاہیے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے غلط تحریر درجہ اعتبار سے گر جاتی ہے۔ مشکل زبان میں لکھنے سے تحریر کا وزن نہیں بڑھتا بلکہ غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے والے کا فرض ہے کہ وہ جو لفظ استعمال کرے اس کے معنی اور کیفیت سے پوری طرح آشنا ہو۔ اسی طرح بازاری زبان لکھنے سے پڑھنے والے کو متاثر کرنا غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔

صحافت میں مفروضہ یہ ہے کہ لکھنے والا غیر جانب دار ہے۔ لکھنے والا رائے عامہ کے ایک مفروضہ حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ صحافی ایک فرد کی حیثیت سے قلم اٹھاتا ہے لیکن اس کی اخلاقی حیثیت اجتماعی ہے۔ چنانچہ صحافت میں ’صیغہ متکلم‘ ایک ناقابل قبول طرز بیان ہے۔ پڑھنے والے کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ صحافی کے والدین کون تھے۔ احباب کون ہیں۔ لکھنے والے کی ذاتی معاشرتی ترجیحات کیا ہیں۔ سیاسی رجحانات کیا ہیں۔ بے شک لکھنے والے کے سیاسی رجحانات بھی ہوتے ہیں۔ معاشرتی میلان بھی ہوتے ہیں لیکن  پیشہ ورانہ کام کرتے ہوئے صحافی کی ذات غیر اہم ہو جاتی ہے۔ صحافت میں وہ تحریر کمزور بلکہ ناگوار سمجھی جاتی ہے جس میں بار  بار لکھنے والا اپنی ذات کا ذکر کرتا ہے۔اور صیغہ متکلم استعمال کرتا ہے

صحافت ذاتی لڑائی نہیں ہے۔ کسی کی حمایت کی جا رہی ہے یا مخالفت، صیغہ واحد غائب استعمال کرنا غیرمناسب ہے۔ ’وہ کہتا ہے‘ یا ’وہ کرتا ہے ‘ نامناسب صحافتی بیان ہے۔ جس طرح کمرہ جماعت اور کمرہ عدالت میں ہر انسان کے شخصی احترام کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ صحافت میں بھی کسی کو یہ حق نہیں کہ اپنے مخاطب یا موضوع کے بارے میں شخصی احترام سے عاری لب و لہجہ اختیار کرے۔

تحریر کی زبان تقریر سے مختلف ہوتی ہے۔ ہمارے کچھ لکھنے والوں نے ’میرے پیارے قارئین‘ کی ایک ترکیب دریافت کی ہے ۔ یہ غیر ضروری بلکہ فنی طور پر غلط انداز تحریر ہے۔ آپ کی تحریر کا ہر لفظ پڑھنے والوں ہی کو مخاطب کر رہا ہے۔ ’میرے پیارے قارئین‘ کہنے سے لکھنے والے کی یہ نفسیاتی کمزوری ظاہر ہوتی ہے کہ اسے یہ اعتماد نہیں ہے کہ پڑھنے والا اس کی بات پر کان دھر رہا ہے۔

اسی طرح تحریر میں غیر ضروری طور پر خطابت کا لہجہ اختیار کرنا صحافت میں روا نہیں ہے۔

ایک نکتہ یہ کہ صحافت میں رموز اوقاف یعنی پنکچوایشن کا ایک خاص منصب ہے۔ رموز اوقاف کا مقصد تحریر کے معنی کو واضح کرنا ہے تا کہ تفہیم میں کوئی ابہام نہ پیدا ہو۔ جملہ ختم ہوتا ہے تو وقف کا نشان دیا جاتا ہے۔ جملے میں کوئی ذیلی حصہ شامل ہوتا ہے تو اسے کوما (،)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔تحریر میں کبھی کبھار استعجاب کے نشان (!)کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والا پڑھنے والے سے یہ درخواست کرے کہ یہاں رک کر توجہ فرمائیے کہ ہم نے کیا خاص بات کہی ہے یا کون سی بات کہے بغیر محض اشارہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر (….)کا نشان دینا مناسب ہے۔ جہاں سوال کیا جائے وہا ں (؟) کی علامت دی جاتی ہے۔

ہمارے کچھ لکھنے والے اوقاف کی بجائے جہاں دل چاہے چھ وقفے ڈال دیتے ہیں۔ ایک کی بجائے چار مرتبہ سوالیہ نشان دیتے ہیں۔ کچھ اصحاب باقاعدگی سے ایک کی بجائے تین دفعہ ’کوما‘ دینا پسند کرتے ہیں اور کچھ تو صحافت میں فیس بک کے مخصوص نشانات (سمائلی) بھی دیتے ہیں۔

 یہ بے تکلفی پڑھنے والے کے ساتھ ناانصافی ہے۔ املا کی درستی نہایت اہم بات ہے۔  ادارتی عملے کا منصب پیشہ ورانہ اصولوں پر آپ کی تحریر کو پرکھنا ہے۔  تحریر میں رموز اوقاف اوراملا ٹھیک کرنا نہیں۔ املا یا رموز اوقاف کی غلطی کسی بھی انسان سے ہو سکتی ہے لیکن یہ غلطی نادانستہ ہونی چاہیے۔ جان بوجھ کر بلکہ اصرار کر کے اپنی ’ذاتی زبان‘ لکھنا غیر ذمہ دارانہ صحافت ہے ۔

جس طرح غیر ضروری طور پرقدیم یا متروک املا استعمال کرنا غلط ہے اسی طرح سرے سےغلط املا استعمال کرنا بھی درست نہیں۔ یاد رکھئے کہ املا کی ہر غلطی کو غلط العام قراردینا بھی درست نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ لکھنے والا زبان کو ذمہ داری کے ساتھ برتے۔ معیاری  زبان سےغفلت برتنا پڑھنے والے کی توہین کے مترادف ہے۔

 ہم سب کا نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ ہم سب کے لئے ہے۔ اور جو لکھاری آنا چاہے آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں۔

مضامین کے سلسلے میں ادارتی پالیسی جاننے کے لئے اس مضمون کا مطالعہ بھی آپ کی راہنمائی کرے گا۔

آپ ‘ہم سب’ کے لیے لکھے گئے اپنے مضامین ان دونوں ای میل ایڈریسوں پر ارسال کریں:۔
w_masood@yahoo.com

articles@humsub.com.pk


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments