کیونکر کہوں کہ کوئی تمنا نہیں مجھے


بھوک کا ختم ہونا، موت کی پہلی اور قوی علامت ہے۔ بھوک، خواہش کا دوسرا نام ہے اور خواہش جب رخصت ہوتی ہے تو زندگی کو ساتھ لے کر۔ غالب نے کہا تھا۔

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

گویا زندگی سے جڑے رہنے کی آخری کوشش۔ مجھے علم نہیں تھا کہ اپنے دانش ور دوست رانا اعجاز سے آخری ملاقات کر رہا ہوں۔ وہ بیمار تھے اور اس بستر پر دراز جس سے موت نے ان کو اٹھایا۔ عرض کیا ”رانا صاحب! جلدی سے ٹھیک ہوجائیں، محکمانہ ترقی آپ کی منتظر ہے“ ۔ بڑی بے رنگ اور بے مزہ مسکراہٹ تھی ان کے ہونٹوں پر۔ کہا ”! جہاں میں ہوں، وہاں یہ سب بے معنی ہے، قطعی بے حقیقت“ ۔ ان کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔ تب مگر میں یہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا کہ موت ان کی دہلیز لئے بیٹھی ہے اور اگلے ہی روز رانا صاحب کو انگلی سے پکڑ کر ساتھ لے جائے گی۔

میں سوچتا ہوں کاش! مجھے رانا صاحب کے ساتھ وہ پورا دن بتانے کا موقع مل جاتا۔ قرب موت کا کچھ نہ کچھ فرسٹ ہینڈ نالج بہم ہوجاتا۔ سبھی لوگ اپنا آپ سنانے کا ڈھنگ نہیں رکھتے۔ گدڑی نشینوں سے مسند نشینان ایوان ہائے اقتدار تک کے انٹرویوز کیے۔ جب چھپے تو پڑھنے والے کہتے تھے کیا خوب جزئیات نگاری ہے۔ انہیں علم نہ تھا کہ سبھی داستان گو نہیں ہوتے، لوگوں کو اپنی زندگی کی جزئیات سے گردوپیش سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ تین تین گھنٹے بیٹھ کر اگلوانا پڑتا ہے، چھوٹے چھوٹے بے شمار سوالات۔ مگر رانا صاحب اسپ ابلاغ کے شہ سوار تھے۔ خود پر گزرنے والی واردات کو وہ ایک ایک نقطے کی تفسیر کر کے سننے والے تک پہنچانے پر قادر تھے۔ دلی والے میر باقر علی ایسے دیومالائی داستان گو۔ وہ صراحت کے ساتھ بتا سکتے تھے کہ بھوک ختم ہونے کے بعد انسان کیا محسوس کرتا ہے۔

ڈاکٹر حنیف چودھری ہیں، خیر سے گزشتہ ماہ کی دس تاریخ کو اکانوے برس عمر عزیز کے مکمل کیے۔ تین ہی چار برس ہوتے ہیں کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ زبانی امتحان میں پوچھا گیا ”بزرگوار! اس عمر میں ڈاکٹریٹ کر کے آپ کیا کریں گے“ ۔ چودھری صاحب نے کہا ”علم اور عشق عمر کی حدوں سے ماورا ہوتے ہیں“ ۔ پرسوں ملاقات ہوئی۔ عمر بھر کتاب کی سطروں پر گامزن رہ کر تھک چکی ان کی آنکھیں پر آب ہو گئیں۔ کہنے لگے ”اکانوے برس کا حساب دینا ہے، کیونکر دے پاؤں گا“ ۔ کبھی چودھری صاحب کی کہانی تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔ عمر بھر فقر اور درویشی کا دامن نہیں چھوڑا۔ حرف لکھ کر اور بول کر رزق کمایا، فاقہ مستی کا حظ بھی اٹھایا۔ وہ بھی پریشاں ہیں۔ عرض کیا۔ چودھری صاحب حساب کی طرف جاتے ہی کیوں ہیں، صوفی کی پکار اپنائیے۔

جے میں ویکھاں عملاں ولے
کج نہیں، میرے پلے۔
جے میں ویکھاں رحمت تیری
بلے بلے بلے۔

بولے ”تمام عمر کتابوں کی بھوک میں مبتلا رہا۔ اپنا اور بعض اوقات بچوں کا پیٹ کاٹ کر کتابیں خریدیں۔ کیسی کیسی نایاب کتابیں ہیں، میرے بعد کوئی نہیں جو سنبھال سکے“ ۔ عرض کیا ”یونیورسٹی کو عطیہ کردیجئے“ ۔ بھڑک اٹھے ”وہاں بے اعتبار لوگ ہیں، گھروں کو لے جاتے ہیں کتابیں، اوپر سے متعصب۔ ایک ڈاکٹر انوار احمد ہیں جو مجھے یونیورسٹی لے کر گئے اور تحقیقی کام بھی کروایا۔ ان کے جانے کے بعد تو ایریا سٹڈی سنٹر کا حال دگرگوں ہے“ ۔ میں نے کہا ”درست ہے، کوئی اور ادارہ دیکھ لیتے ہیں“ ۔ بولے ”نہیں بس میں اپنے ہاتھ سے ان کتابوں کو دیا سلائی دکھا کر جاؤں گا“ ۔ منانے کی کوشش جاری ہے مگر ابھی چودھری صاحب بعض لوگوں کے رویہ کی بنا پر یونیورسٹی سے ہی دلبرداشتہ ہیں۔ یا پھر شاید ان کی بھوک بھی ختم ہو گئی ہے۔

میرے گھر میں اوپر کی منزل پر ایک کمرہ ہے جس میں کتابوں اور کاغذات کے انبار ہیں۔ سب سے پرانی کتاب سن اٹھارہ سو ننانوے کی ہے اور تازہ ترین شمس الرحمن فاروقی کی ”کئی چاند تھے سر آسماں“ جس کے صفحات میں تو انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کا زمانہ سانس لیتا ہے مگر بک کارنر جہلم کی یہ اشاعت 2020 ءکی ہے۔ بڑے بڑے خاکی لفافے ہیں جن کے اندر وقت کی دھوپ سے کملائے ہوئے کاغذات ہیں، ادھ لکھی تحریریں جو کسی خاص ذہنی رو کے تحت شروع کیں اور مکمل نہ ہو سکیں۔

کتابوں، مضامین، کالموں، کہانیوں کے ہاتھ سے لکھے اور کمپوز شدہ مسودے۔ اخبارات میں چھپنے والی میری تحریروں کے تراشے اور کچھ پرانے اخبارات۔ کچھ خط بھی تھے اور چند تصویر ہائے بتاں بھی مگر بائیس برس پہلے جب شادی کا چرچا ہوا تو پیشگی احتیاط کے طور پر میں نے انہیں تلف کر ڈالا تھا۔ تاہم ”اس گلی میں مجھ سے پہلے میرے افسانے گئے“ والا معاملہ ہوا۔ مخبری کرنے والوں نے اپنا کردار بحسن و خوبی نبھایا۔ نتیجہ یہ کہ بیگم صاحبہ ایک ایک مکتوب نگار سے واقف و آگاہ ہیں۔ تاہم چونکہ ”ثبوت“ میسر نہیں سو یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بعد مرنے کے مرے گھر سے وہ ساماں نہ نکلے گا جس کا تذکرہ بزم اکبر آبادی نے کیا تھا۔

چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

ہاں مسودے ضرور نکلیں گے اور بہت ڈھیر ساری کتابیں بھی۔ پتہ نہیں کس جذبے کے تحت میں نے انہیں سنبھال رکھا ہے۔ ایک زمانے میں لوگ ڈائری لکھا کرتے تھے۔ مجھے بھی کئی دفعہ یہ شوق چرایا مگر دو وجوہ کی بنا پر پورا نہ کر پایا۔ ایک تو میں شروع دن سے اخبار کا لکھاری ہوں۔ بہت چھوٹا سا تھا جب کہیں ادھر ا±دھر سے لطیفہ اٹھا کر امروز کے ایڈیشن ”بچوں کی دنیا“ میں بھیج دیا تھا۔ تب سے جو یہ چسکا لگا تو جو جو کچھ لکھا چھپنے کے لئے لکھا۔

سو ڈائری لکھنا مجھے ایک کار فضول لگا کہ دن بھر کی روداد لکھ کر ڈائری کو سڑنے کے لئے الماری میں ڈال دینا کہاں کی دانش مندی ہے بھلا۔ دوسرا ڈائری کو جب کھولو وہ آپ کو بیتے دنوں میں لے جاتی ہے۔ گزرے وقت کی سیر دیکھنا مجھے مرغوب رہا ہے مگر جب اس میں جزئیات شامل ہو جائیں تو وہ ایک ملال انگیز اداسی طاری کر دیتی ہیں، چنانچہ اس کیفیت سے بچنے کے لئے میں نے ڈائری کبھی نہیں لکھی۔ سچی بات ہے پورا سچ لکھا جاسکتا ہی نہیں۔ نہ ڈائری میں نہ اخبار میں۔ تو جب ادھوری باتیں ہی لکھنی ہیں تو اخبار زیادہ بہتر ہے۔

بہرحال! میں سوچتا ہوں کہ زندگی کے شب و روز میں ہم جو جو کچھ جمع کرتے ہیں، سمیٹ سمیٹ کر رکھتے ہیں، کیا یہ سب ایک روز بے مصرف اور بے معنی ہو جانے والا ہے؟ چودھری صاحب کی باتوں نے اور رانا صاحب کے جملے نے میری اشتہا کو گہنا دیا ہے۔ میرے بچے تو انگریزی خواں ہیں، اردو کی یہ کتابیں جو میں نے برسوں کی ریاضت سے جمع کیں، بھلا کون پڑھے گا؟ یہ جو مسودے اور تحریری کاپیاں سنبھال رکھے ہیں، ان سے بھلا میرے بعد کس کو دل چسپی ہوگی؟ تو کیا میں بھی ان کو دیا سلائی دکھا دوں؟ لیکن نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا کیونکہ بھوک کا ختم ہونا، موت کی پہلی اور قوی علامت ہے۔ بھوک، خواہش کا دوسرا نام ہے اور خواہش جب رخصت ہوتی ہے تو زندگی کو ساتھ لے کر۔ مجھے خواہش کو زندہ رکھنا ہے۔

کیونکر کہوں کہ کوئی تمنا نہیں مجھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).