نوکری اور آزادی


میری چھوٹی بیٹی صبا نے جب لمز میں داخلہ لیا تو ہمیں بڑی تشویش ہوئی کہ گھر سے اتنا دور ہاسٹل میں کیسے رہے گی۔ تاہم وہ بہت جلد ہی لاہور میں مانوس ہو گئی۔ بلکہ جب ہم کبھی اس سے ملنے جاتے تو وہ ہماری رہنمائی کرتی۔ جب اس کا کورس درمیان میں پہنچا تو چھٹی پر گھر آئی۔ تاہم یہاں بھی کاغذات کا ایک پلندا لے کر آئی۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ ان کاغذات میں کیا کر رہی ہے تو بولی کہ دو سال بعد جب وہ لمز سے فارغ ہوگی تو اس کا ارادہ کوئی معمولی ملازمت کرنے کا ہے۔

میری حیرت دیکھتے ہوئے ہنس پڑی کہ بقیہ تعلیم وہ اپنے پیسوں سے کرے گی اور اس طرح سے عملی زندگی کا تھوڑا بہت تجربہ بھی دیکھ لے گی۔ میں نے کہا کہ اس میں تو ابھی دو سال ہیں۔ تو جو اب دیا کہ ان دو سالوں میں وہ مختلف کمپنیوں کے بارے معلومات حاصل کر کے ان میں سے چند ایک کا انتخاب کرے گی اور پھر وہاں درخواست دے گی۔ دو سال کا عرصہ مجھے بہت بڑا لگا اس چھوٹے سے کام کے لئے۔ تاہم وہ عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا اور صبا نے لمز کے کورس ختم ہونے سے چھ ماہ قبل ہی درخواستیں دے دے کر کراچی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت حاصل کرلی تھی۔ ان چار پوسٹوں کے لئے ہزاروں درخواستیں آئی تھیں لیکن اپنا ہوم ورک کرنے کی وجہ سے صبا اگلے دو سال کراچی میں اچھی تنخواہ پر کام کرتی رہی۔ اسی تنخواہ کی بچت سے نہ صرف اس نے بقیہ تعلیم مکمل کی بلکہ اب ماشاء اللہ بیرون ملک فائنانس کی کنسلٹنٹ ہے۔

صبا مجھے یوں یاد آئی کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی جس میں ایک انجینئر کی پرائمری سکول کے ٹیچر کی پوسٹ پر تعیناتی کی خبر ہے۔ یہ افسوس کی بات بھی ہے اور فکر کی بھی۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ میرے خیال میں پہلا قصور انجینئر کا ہے کہ یا تو اسے اپنی تعلیم سے دلچسپی نہیں تھی کہ اس نے ٹیچر کی جاب کے لئے درخواست دی اور یا وہ تعلیم کے دوران اپنے مستقبل کے لئے مناسب پلاننگ نہیں کر پایا۔ کم از کم کسی انجینئرنگ فرم کے ساتھ مفت ہی میں کچھ وقت گزار لیتا اور تجربے کے ہتھیار سے مسلح ہوجاتا۔

دوسرا قصور ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں کا ہے جو دھڑا دھڑ گریجویٹ تو پیدا کر رہے ہیں لیکن فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کی کوئی رہنمائی نہیں کر پا رہے۔ نہ تو طلبہ کو کسی شعبے میں داخلے سے قبل علم ہوتا ہے کہ اس میں کیا سکھایا جاتا ہے، سیکھنے کے بعد عملی زندگی میں کیا کرنا ہوتا ہے، کیا اس پیشے سے طالب علم کو کوئی شغف بھی ہے کہ نہیں۔ اس میں مستقبل میں کیا سکوپ ہے اور نہ ہی تعلیم ادارے اس طرف توجہ مبذول کرتے ہیں۔

یہ سب باتیں سکول کے زمانے ہی سے طلبہ کے ذہن میں آنی چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے ابتدا ہی سے بچوں پر رٹے کا وہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے کہ وہ کچھ سیکھنے کی بجائے حفظ اور گائیڈ بکس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ مقصد صرف اور صرف نمبر حاصل کرنے ہوتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ منزل معلوم نہیں اور صبح سے شام دوڑے جا رہے ہیں۔

اس وقت تعلیم کی کمی کا ایک احساس کمتری تیسری دنیا کے عوام کو پاگل بنائے ہوئے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی تعلیم بیچ رہے ہیں اور غریب ممالک کا اوسط طبقہ اپنی ساری جمع پونجی اپنے بچوں کی تعلیم برائے تعلیم پر خرچ کرتی جا رہی ہے۔ میرے ایک دوست کے بیٹے نے انگلینڈ میں بارہویں جماعت یعنی اے لیول میں بڑے اچھے گریڈ لے لئے تو فیصلہ کیا کہ بس اب اسے بزنس شروع کرنا ہے۔ تاہم وہاں کی حکومت نے ان کے لئے نئے بزنس شروع کرنے کی بھی تربیت کا اہتمام کیا ہے اور چھ ماہ کے لئے یونیورسٹی نے اسے داخلہ بھی دے دیا ہے۔

حکومت تمام تعلیم یافتہ افراد کو ملازمت ہرگز نہیں فراہم کر سکتی۔ ملازمت ویسے بھی ترقی کرنے کی سب سے سست رفتار ٹرین ہے۔ اس پر سوار ہونے کے لئے کچھ زیادہ بے صبری ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ حکومت اور تمام تعلیمی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ کم از کم طلبہ کی رہنمائی کے لئے مناسب فورم بنائے۔ بھارت میں ہر اخبار اور ہر چینل طلبہ کے کیرئیر کونسلنگ کے پروگرام باقاعدگی سے رکھتے ہیں۔ میں نے وہاں ہر اخبار میں کم از کم ایک کالم اسی پیشہ ورانہ رہنمائی پر دیکھا ہے۔

یہاں میں نے کئی اخباروں کو خود سے پیش کش کی ہے کہ اگر ضرورت ہو تو ہم چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک کالم اس پر شروع کر سکتے ہیں جہاں مختلف درجے کے طلبہ اپنی پسند کی فیلڈ میں معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ہم ان کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں لیکن سیاسی اور جرائم کی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں میں کہاں جگہ ملتی ہے۔ اب لے دے کے ایک حکومت کی طرف سے رہنمائی کی ایک ایسی ہی کوشش ہو رہی ہے۔ اس میں نیشنل انکیوبیشن سنٹر نے تیسری دفعہ درخواستیں طلب کی ہیں جس میں مختلف سٹارٹ اپ پروگراموں کی نہ صرف رہنمائی ہوگی بلکہ ان کو مناسب مدد بھی دی جائے گی۔

اسی کامیابی سے متاثر ہو کر کئی ادارے انکیوبیشن کے پروگرام شروع کر رہے ہے ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کے تقریباً تمام کامیاب ادارے انہی چھوٹے چھوٹے سٹارٹ اپ کمپنیوں ہی سے ابھرے ہیں۔ جن طلبہ یا نوجوانوں کو کوئی نیا خیال یا نئی ایجاد سوجھی ہے وہ بآسانی، گوگل کر کے اپنے نزدیک ترین انکیوبیشن سنٹر میں درخواست دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو اپنے ماحول سے نکل کر عملی دنیا کا مزا بھی چکھنا چاہیے۔ کبھی کسی فیکٹری کا دورہ کر لیا۔

کبھی کسی دکاندار کے ساتھ پورا دن گزار لیا۔ کبھی اخبار فروش سے اخبار ہی لے کر بانٹ لئے۔ یہ سب عملی دنیا کے کام ہیں اور انہی سے عملی دنیا کی تربیت ملتی ہے۔ میرے کئی دوست اس سلسلے میں بہت سوچ رکھتے ہیں کہ ہم طلبہ کے لئے کوئی ایسی آن لائن رہنمائی کی سروس شروع کرسکیں۔ تاہم مختلف یونیورسٹیاں سب سے بہتر پوزیشن میں ہیں کہ وہ نہ صرف رہنمائی کے یہ پروگرام سارا سال جاری رکھ سکیں بلکہ گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں میں باقاعدہ سمر کیمپ یا ورکشاپ منعقد کریں۔

ہم بھی طب کی فیلڈ میں ہر سال نئے زیر تربیت سپیشلسٹوں کے لئے کیرئیر کونسلنگ کی ایک ورکشاپ پی جی ایم آئی کے تعاون سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب تک دو ورکشاپ کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں طلبہ کو بھی آگے آنا چاہیے اور یہ مطالبے اپنے تعلیمی اداروں کے کرتا دھرتا لوگوں کے سامنے رکھیں۔ ویسے بھی ان کو اپنے کورس کے علاوہ انٹرنیٹ سے اس قسم کا مواد خود بھی بہت آسانی کے ساتھ مل سکتا ہے۔ گوگل اب اردو میں بھی دستیاب ہے اور سمارٹ فون یا کمپیوٹر کے ساتھ اب کسی کو یہ گلہ کرنا ہی نہیں چاہیے کہ ہمیں کسی چیز کا علم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).