ڈان لیکس سے اعجاز شاہ کے انتباہ تک



یادش بخیر چار برس قبل ڈان لیکس کے نام سے شائع ہونے والی ایک اخباری رپورٹ میں ایسی کیا خرابی تھی کہ ایک وفاقی وزیر کے علاوہ متعدد اہلکاروں کو استعفیٰ دینا پڑا۔ رپورٹ دینے والا صحافی صحافت سے تائب ہو گیا اور پاناما لیکس میں سامنے آنے والے انکشافات تک ڈان لیکس ہی پاکستانی سیاست پر چھائی رہیں۔ سوچنا چاہیے کہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے ’دہشت گردوں‘ سے مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو لاحق خطرہ کے متعلق جو انتباہ دیا تھا، اس میں ایسا کون سا شہد گھلا ہے کہ کوئی حرف اعتراض اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا؟

ڈان لیکس مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی اور شکایتوں کا نقطہ آغاز تھی۔ نواز شریف کی حکومت نے یہ خبر شائع ہونے کے بعد ان عناصر کا سراغ لگانے کا وعدہ کیا تھا جن کی وجہ سے یہ خبر ڈان کے رپورٹر تک پہنچی اور یوں قارئین یعنی پاکستانی عوام کو ان معلومات تک رسائی حاصل ہو گئی جنہیں وسیع تر قومی مفاد میں ’خفیہ‘ رہنا چاہیے تھا۔ اس دوران کبھی فوج کو حکومت کے طریقہ کار پر اعتراض ہوتا اور کبھی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرنے کی ضرورت پڑتی۔ یہ سادہ سی رپورٹ وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک ایسے اجلاس کے بارے میں تھی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوج کے نمائندوں سے اصرار کیا تھا کہ انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے دوران ایجنسیاں مداخلت کر کے صوبائی حکومت کے کام کو مشکل بناتی ہیں، جس کا تدارک ہونا چاہیے۔

پاکستان میں عام طور سے قیاس کیا جاتا ہے کہ انگریزی میں کیے گئے تبصروں یا خبروں سے ’اصل سرکار‘ کو پریشانی لاحق نہیں ہوتی کیوں کہ عام پاکستانیوں تک اس زبان میں چھپنے والے مواد تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اردو میں شائع یا نشر ہونے والے مواد کے بارے میں حکومتیں اور ان سے بالا انتظام کرنے والی طاقتیں ہمیشہ حساس رہی ہیں۔ تاہم پاکستان میں اگر کبھی صحافت کی غیر جانبدارانہ تاریخ لکھی گئی تو ڈان لیکس کے نام سے مشہور ہونے والی سیریل المیڈا کی رپورٹ کو ضرور استثنائی حیثیت حاصل ہوگی۔ یہ رپورٹ انگریزی زبان میں تھی اور اسے ملک کے ممتاز انگریزی اخبار روزنامہ ڈان نے شائع کیا تھا۔

رپورٹ کی اشاعت پر البتہ فوج نے شدید رد عمل دیا اور حکومت وقت سے ان عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا جن کی وجہ سے یہ ’بے بنیاد خبر‘ ڈان تک پہنچی اور اسے شائع کروانے کا اہتمام کیا گیا۔ کوئی بھی معقول اخبار رضاکارانہ طور پر کسی بھی بے بنیاد خبر کی تردید کرنے میں کوئی علت محسوس نہیں کرتا۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس خبر میں دی گئی معلومات کے بارے میں عسکری یا سرکاری ذرائع ’درست‘ معلومات بہم پہنچاتے تو روزنامہ ڈان کے مدیران اپنی غلطی کی اصلاح کرنے اور خبر کو مشکوک قرار دینے میں دیر نہ کرتے۔ اخبار ات خبروں کے اعتبار کی بنیاد پر ہی قاری سے رشتہ استوار کرتے ہیں۔ اسی لئے کوئی بھی ذمہ دار مدیر کسی بھی غلط رپورٹنگ کو برداشت نہیں کرتا۔ اور اگر کبھی معلومات کی ترسیل میں کوئی سقم رہ جائے تو اس کی اصلاح میں دیر نہیں کی جاتی۔ ڈان لیکس کے بارے میں مگر ڈان کے مدیروں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ اس خبر کو واپس لینے یا اس کی ’تصحیح‘ چھاپنے سے انکار کر دیا۔ یعنی اخبار کا موقف تھا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہے اور اسے ان ذرائع پر بھروسا ہے جن کے ذریعے وہ خبر اخبار کے رپورٹر تک پہنچی تھی۔

اس طرح ڈان لیکس کا سارا ملبہ نواز شریف کی حکومت پر آن گرا۔ حکومت نے اپنے طور سے عسکری قیادت کی پریشانی کم کرنے کی کوشش ضرور کی کیوں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی ایسے عناصر موجود تھے جو فوج کے ساتھ حجت کرنے کی بجائے سر تسلیم خم کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان تحقیقات میں اس ایک نکتہ پر زور دیا گیا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک نہایت حساس اور خفیہ اجلاس کی خبر باہر کیسے نکلی۔ اس سارے قضیہ میں البتہ یہ کبھی واضح نہیں ہوسکا تھا کہ فوج کو ڈان لیکس میں فراہم کی گئی معلومات کے غیر مصدقہ و گمراہ کن ہونے پر اعتراض تھا یا اسے اس بات سے پریشانی تھی کہ وزیر اعظم ہاؤس جیسے محفوظ مقام پر ہونے والی باتوں تک بھی عام سے رپورٹر کی رسائی تھی۔ بلکہ اس نے یہ حوصلہ بھی کیا کہ اسے عام لوگوں تک پہنچایا جائے۔

جیسا کہ اہل پاکستان جانتے ہیں کہ نواز شریف کو عاجز کرنے کے لئے پاناما لیکس کی صورت میں زیادہ موثر ہتھیار ہاتھ آنے سے پہلے ڈان لیکس کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کمزور اور غیر موثر کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ پاناما لیکس میں چونکہ عوامی دلچسپی کا چٹخارے دار مواد سامنے آیا تھا لہذا یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ’ڈان لیکس‘ کے سہارے کی ضرورت نہ رہی۔ البتہ بعد از وقت اگر اس ساری صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے، اسے موجودہ سرکاری بیانیہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ صورت حال جوں کی توں ہے اور اس میں سر مو فرق نہیں پڑا۔ اب بھی ریاست کے کچھ حلقے بعض عناصر کو ایک انجانے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں یا انہیں موثر کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے حال ہی میں ننکانہ میں تقریر کرتے ہوئے کچھ اسی قسم کے اشارے دیے ہیں۔

اعجاز شاہ کا دعویٰ ہے کہ : ’طالبان نے دہشت گردی کے خلاف غیر مفاہمانہ اور غیر لچکدار رویہ اختیار کرنے پر عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈروں کو نشانہ بنایا تھا۔ اور آج کل کے حالات میں مسلم لیگ (ن) کو بھی اسی قسم کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ ۔ یہ بیان صرف یہ واضح کرتا ہے کہ ملک میں ہر دور میں ایسے عناصر کہیں نہ کہیں موجود ہوتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی سطح پر سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے جو کسی خاص مشن کے لئے کسی بھی لیڈر یا لوگوں کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر کے بیان کے بعد اے این پی اور پیپلز پارٹی کے احتجاج اور بعض صحافیوں کے چبھتے ہوئے ٹویٹ پیغامات کے باوجود وزیر اعظم یا ان کی حکومت کو اس سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ عمران خان کو اس بات پر بھی کوئی شرمندگی یا تشویش نہیں ہے کہ اعجاز شاہ وہی شخص ہے جن کا نام شہید بے نظیر بھٹو کی اس فہرست میں شامل تھا جو انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے تیا رکی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی فہرست میں ان لوگوں کے نام درج تھے جن پر انہیں اپنے خلاف سازش کرنے کا شبہ تھا۔

اب اعجاز شاہ ملک میں نئے افسوسناک واقعات کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ بعض حلقے اسے وفاقی وزیر داخلہ کی دھمکی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں کہ اس بیان سے یہ سمجھا جائے کہ جو کام نیب، عدالتوں اور سیاسی بیان بازی سے نہیں ہوسکا، اسے کسی دوسرے طریقے سے پورا کرنے کا انتظام بھی موجود ہے۔ یہ قیاس آرائیاں صریحاً بے بنیاد ہو سکتی ہیں لیکن معاملہ کا یہ پہلو قابل غور ہے کہ ان قیاس آرائیوں اور وزیر داخلہ کے غیر ذمہ دارانہ لب و لہجہ پر حکومت وقت کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ اسی لئے ڈان لیکس کا حوالہ اہم ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک کے بعض اہم اداروں کو کیوں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس کی خبر پر سخت بے چینی لاحق ہوئی تھی اور ایک وزیر اعلیٰ کو بعض عناصر کے خلاف کارروائیوں میں مشکلات کا ذکر وزیر اعظم کی موجودگی میں، ملک کے اہم ترین اداروں کے سربراہوں سے کرنا پڑا تھا؟ اور اب صورت حال میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے کہ وزیر داخلہ کے ایک اجلاس عام میں دیے گئے بیان پر بھی کسی طرف سے پریشانی کا اظہار ضروری نہیں سمجھا گیا۔ حالانکہ کسی نہ کسی انداز میں اب بھی موضوع گفتگو وہی عناصر ہیں جن کا حوالہ ڈان لیکس میں آیا تھا۔ اب یہ حوالہ کسی اخباری رپورٹ کی بجائے ایک ذمہ دار وزیر کے بیان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ بس رد عمل کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

یہ جاننا بھی شاید دلچسپی کا باعث ہو کہ ڈان لیکس کی ’بے پناہ شہرت‘ کے بعد ہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے شبہ پر جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گزشتہ ماہ منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی پاکستان اس فہرست سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی اور ملکی نظام کو شفاف بنانے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا وفاقی وزیر داخلہ کا بیان اس شفافیت پر سوالیہ نشان لگانے کا سبب نہیں بنے گا؟

وزیر داخلہ نے نواز شریف کے ساتھیوں کو لاحق خطرہ کے بارے میں ایک ایسے وقت میں تشویش کا اظہار کیا ہے جب ایاز صادق کے اس بیان کو ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہے کہ حکومت نے بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کی رہائی کے معاملے میں بدحواسی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس بیان کے بعد سے ایاز صادق کے علاوہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پر اسرار ’محب الوطن عناصر‘ نے ایاز صادق کے حلقے میں انہیں میر جعفر و میر صادق قرار دینے والے بینرز آویزاں کیے ہیں اور ملک کا وزیر اعظم بنفس نفیس ہر اختلاف رائے میں چوری چھپانے کی کوشش، تلاش کرنے کے بعد اب غداری کی علامات کا سراغ لگا رہا ہے۔

اس کے باوجود نہ فواد چوہدری کا یہ بیان کہ ’عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے گھر میں گھس کر مارا‘ اور بھارت کو سبق سکھایا، کسی قومی مفاد پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور نہ ہی اعجاز شاہ کے بیان میں موجود شدت پسند عناصر کی سرپرستی کی علامات کو محسوس کیا جا سکا ہے۔ اختلاف رائے سے قطع نظر پاکستان کے سب لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ دائرے کا یہ سفر اس ملک کو کس طرف لے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali