ہے مکرر لب ساقی پہ۔۔۔ (ایک نثری نظم)


اہلِ ہیبت کے دیو

خوفِ مجہول کے بادل بن کر

دستورِ تاسیسِ وطن پہ گویا

جیشِ مطلق کی طرح  سایہ فگن رہتے ہیں

کبھی تو لکھے گا کوئی قصہ ارضِ وطن

قصہ شمشیرِ ستم ، قصہ شوریدہ سَراں

چاند کے چاند ڈھلے، سال کے سال گئے

اُس وادئی سَنگلاخ کے کچھ پیرانِ وطن

فرزندانِ گم گشتہ کی تصویریں تھامے

شاہرہ دستور پہ ایک صُورتِ رَنج و حُزن

انصاف کی دیوی کو ہر روز صدا دیتے ہیں

درگور اسی شہر میں ہیں  جمہور کے خواب

مملوک یہیں سلطان ہوئے حیلہ گری سے

آرزویں سب خاک ہوئیں اپنے آبا کی یہیں

جراتِ انکار  مدفون ہے قصرِ ہلا ہل میں یہیں

حریتِ افکار مصلوب ہے شہرِ  قاتل میں یہیں

پھر بھی آ جاتے ہیں خیالوں میں وہی شرقی  ہم زاد

حیلہ گر اڑاتے  تھے کبھو جن کی نجابت کا  مزاق

ٹھہرا  غدار  سنِ چون  میں  وہی   پیرِ  بنگال

ارضِ پاک کا محرک تھا سنِ چالیس میں جو

وہی ضرغامِ ملتِ خِضرا ، ہاں وہی ابو القاسم اپنا

ہم خزاں دیدہ فقیروں کو ارضِ پاک میں  پھر

 ایک معرکہ درپیش ہے جیشِ مطلق سے  مگر

ہمیں معلوم ہے کیا پائیں گے اس رن سے ہم فیض

رکھیں گے عُشاق  مگر، میراثِ سُنتِ سُقراط کی لاج

چلو پھر اِس کوچہ سنگِ مَلامَت  کا انکار کریں

چلو دمِ جمہور سے سنتِ منصور کو دوام کریں

سرخ کانٹوں کے دشت و بیابان میں گم

لَب دوختہ  دوستوں سے کہو

سب دریدہ بدن چاندنی باندھ لیں

پھول بویا کریں، خواب پہنا کریں

اور جہاں بھی چلیں گل بکھیرا کریں

 شہرِ بیداد کے باسیوں سے کہو

گیت بُنتے رہیں ، سپنے دیکھا کریں

رقص بِسمل  کریں ،غزلیں گایا کریں

چارہ گر جو چلیں ،جلوہ گر ہو چلیں

اور جو بینا ہیں  وہ  دیدہ تر  ہو چلیں

شیریں سخن  بھی چلیں دریدہ دہن بھی چلیں

سب یارانِ وطن  کوئے دار و رسن کو چلیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).