مصحفی سے ایک انٹرویو


انور : السلام علیکم !

مصحفی : ابھی جو سامنے سے گزری ہیں وہ کون ہیں ؟

انور : وہ یہاں خبریں پڑھتی ہیں۔ کیوں پوچھ رہے ہیں؟

مصحفی :

ہم نے سو بار نگاہوں میں بلایا اس کو

دور تھا بس کہ نہ سمجھا وہ اشارہ اپنا

انور : شاعر کسی عمر کے بھی ہوں، اپنی عادتوں سے باز نہیں آتے۔

مصحفی : ہم شاعر کہاں سے ہو گئے۔

انور : کیا کہہ رہے ہیں ؟

مصحفی : ہماری شاعری میں سودا کی شوکت الفاظ ، میر تقی میر کا سوز و گداز ، درد کی شگفتگی ، فغاں کی رنگینی ، انشا کی ترکیب الفاظ ، جرات کی روانی تھی، اس کا مطلب یہ ہوا ہماری شاعری میں صرف پاجامہ ہمارا تھا۔

انور : اس طرح کی بات کسی شاعر کو بہت اونچے مقام پر پہنچا دیتی ہے۔

مصحفی : اس کا مطلب ہے ہم تو کدو تھے۔ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا ۔ ہماری زندگی میں کوئی ایسی بات کرتا تو ہم لکھنے والے کے ناخن گڑو دیتے اور اس کام میں ہم ماہر تھے۔

انور : یہ کام آپ نے کس سے سیکھا؟

مصحفی : کسی نے سکھایا۔

شوخی تو دیکھ اس کی کل چٹکی لیتے لیتے

چٹکی کے ساتھ دل میں ناخن مرے گڑویا

انور : آپ اپنی شاعری کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟

مصحفی : میری شاعری میں میرے اپنے اصول اور میرا اپنا ذوق نمایاں ہے۔ میری زبان غزل کی زبان ہے۔ وہ کونے میں جو سرخ کپڑے پہنے کھڑی ہیں، وہ کون ہیں ؟

انور : آپ کا انٹرویو ریکارڈ ہو رہا ہے جو سوال کیا جائے صرف اس کا جواب دیں۔

مصحفی : آپ سے بھی جو سوال کیا جائے صرف اس کا جواب دیں۔ جو سرخ کپڑے پہنے کھڑی ہیں، وہ کون ہیں؟

انور : آپ کی گفتگو سننے کے لیے کھڑی ہیں، دلی کی ہیں۔

مصحفی : اگلا سوال کرو۔

انور : کیوں

مصحفی :

اے مصحفی تو ان سے محبت نہ کییجیو

ظالم غضب کی ہوتی ہیں یہ دلی والیاں

انور : امروہہ چھوڑ کر آپ دلی کیوں آگئے تھے؟

مصحفی : میاں امرو ہے میں عاشق ٹھیلوں پر مل جاتے ہیں اور معشوق جھمیلوں میں نہیں ملتے اور شاعر معشوق کے بغیر ایسا ہے جیسے ٹونٹی کے بغیر حقہ۔

انور : امروہہ میں آپ کو کوئی اچھا نہیں لگا؟

مصحفی : ایک سے عشق کیا مگر ظالم نے نقاب الٹ کر ہی نہیں دی۔ کہنے لگی، ہم شریف امروہوی کی بیٹی ہیں۔ عشق کرتے ہو تو ہماری نقاب پر شاعری کرو۔ ہم نے کہا، امروہے میں تو کبوتر بھی جب تک کبوتری کی شکل نہ دیکھے غٹ غٹ نہیں کرتا۔

انور : بغیر شکل دیکھے آپ کس طرح عاشق ہو گئے؟

مصحفی : پاﺅں دیکھ کر۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی۔ وہ اپنے گھر جا رہی تھی۔ جوتے ہاتھ میں اٹھائے ہوئے تھے۔ ہم نے جتنی طاقت تھی، اس کا اظہار کر کے ایک شعر پڑھ دیا :

بھیگے سے ترا رنگ حنا اور بھی چمکا

پانی میں نگاریں کف پا اور بھی چمکا

مکرر کہہ کر گھر میں گھس گئیں اور چٹخنی لگا دی۔ ہم ان کے گھر کے سامنے ایک ٹوٹی دیوار پر بیٹھ گئے اور خیالوں میں اپنی پیشانی سے ان کی نگاریں کف پا سہلاتے رہے۔ اچانک کسی نے ہمارے کندھے کو دبوچا۔ آنکھ کھولی تو دیکھا خاتون کے والد تھے۔ کہنے لگے، غلام ہمدانی تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ میں نے کہا، آپ کی محنت کا نتیجہ دیکھ رہا تھا۔ آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے۔ کہنے لگے، یہ گھر تو تم برسوں سے دیکھ رہے ہو سچ سچ بتاﺅ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے کہا، آپ پر ایک شعر لکھا ہے سنانا چا ہ رہا تھا، اس لیے آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ فوراً میرے ساتھ بیٹھ گئے اور اپنا سیدھا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ کر کہنے لگے، سناﺅ۔ ہم نے شعر سنایا:

دل میں میرے جو یار کی چاہت گئی ہے بیٹھ

سر کو پکڑ کر اپنے محبت گئی ہے بیٹھ

میرے کاندھے پر سے ان کا ہاتھ آہستہ آہستہ میری گردن پر آیا اور میری گردن دبا کر کہنے لگے، اس شعر میں ہم کہاں ہیں؟ ہم نے کہا، ہمارے ساتھ بیٹھا کون ہے؟ کہنے لگے، ہم ۔ پھر میں نے کہا ہم نے جو بیٹھ کہا ہے، وہ آپ ہیں۔

انور : پھر کیا ہوا؟

مصحفی : انہوں نے مجھے ایک طویل مردانہ گالی دی اور کہا ، یہاں سے روانہ ہو۔

انور : خاتون کا نام کیا تھا؟

مصحفی : پتا نہیں۔ میاں نام میں کیا دھرا ہے؟ امروہے میں ایک خاتون تھیں نسیم۔ سوائے چمن کے وہ ہر جگہ نظر آتی تھیں۔ ہر صبح نکلتے نہیں، واپس آتے دیکھا۔

انور : پھر آپ امروہہ سے دلی آگئے اور وہاں کی زبان میں رچ بس گئے۔

مصحفی : کیا مطلب ہم امروہہ میں اپنی زبان چھوڑ آئے تھے؟

انور : آپ دلی والوں کی طرح شاعری کرنے لگے۔

مصحفی : تم فراق گورکھ پوری کی طرح باتیں کر رہے ہو۔ ہم دلی میں رچ بس گئے تھے، دلی کی زبان میں نہیں۔

انور : داخلی اور خارجی شاعری کیا ہوتی ہے؟

مصحفی : اگر یہ سوال تم فراق سے پوچھو گے تو وہ تقریباً جواب سوا دو گھنٹے کا دیں گے۔ داخلی شاعری کا تعلق دل سے ہے خارجی شاعری دماغ کی شاعری ہوتی ہے۔ یہ سب فضول باتیں ہیں۔

انور : آپ بتائیں؟

مصحفی : میاں وصل داخلی شاعری ہے، ہجر خارجی شاعری۔ جو شاعر کسی کے گھر میں داخل ہو گیا وہ داخلی شاعری کرنے لگا، جو گھر کے باہر یا گلی میں کھڑا رہا وہ خارجی شاعری کرنے لگا۔ شاید تم نہیں سمجھے۔ وزیر داخلہ یعنی گھسنے والا وزیر خارجہ یعنی باہر رہنے والا وزیر۔

انور : آپ وزیر داخلہ تھے یا وزیر خارجہ؟

مصحفی : میاں ہم تو غلام تھے غلام ربانی۔

انور : بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی شاعری میں میر کا رنگ پایا جاتا ہے۔

مصحفی : سوائے فراق کے اور کوئی نہیں کہتا۔ انہوں نے لکھا ہے، مصحفی کے اشعار پر میر کی تقلید کا دھوکا ہوتا ہے جبکہ فراق کی شاعری اور ان کے شوق پر میر کی تقلید کا دھوکا نہیں یقین ہوتا ہے۔

انور : آپ میر کو بڑا شاعر مانتے ہیں؟

مصحفی : عمر کے لحاظ سے۔

انور : میرے خیال میں جو مقام اردو شاعری میں میر کو حاصل ہوا وہ شاید ہی کسی اور کو حاصل ہوا ہو۔

مصحفی : امروہے والے ایک حد تک خاموش رہتے ہیں پھر ان کے جذبات کے ہلکے رنگ، الفاظ و تراکیب کے لطیف سانچے ، خوش کن لہجہ اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھو۔ فراق نے تو یہ بھی لکھا ہے میر کا سوزوگداز یا تو مصحفی نے پیدا کرنا نہیں چاہا یا ان سے پیدا نہیں ہوا۔ اب رہ گئے میرسے کم تر درجے کے شعرا، سو ان کی کون سی بات مصحفی کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ میر کا شعر ہے :

کہتا تھا کسی سے کچھ تکتا تھا کسی کا منہ

کل میر کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانہ تھا

انور : اچھا شعر ہے۔

مصحفی : ٹھیک ہے۔ اب میرا شعر سنو:

ترے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا

انور : آپ کا شعر بھی خوب صورت ہے۔

مصحفی : اس میں میر کا رنگ یا میر کی تقلید کہاں سے آگئی؟ میر نے کہا :

ہو گا کسو دیوار کے سائے میں پڑا میر

کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

انور : واہ۔

مصحفی : ہم نے کہا۔

وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو

درودیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں

ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں

انور : دو قدم جاتے ہیں پھر جا کے چلے آتے ہیں۔

مصحفی : میرا مصرع تمہیں کیسے یاد رہا؟

انور : آپ کا شعر ہے :

کھینچ کر تیغ یار آیا ہے

اس گھڑی سر جھکا دیے ہی بنی

میر نے کہا :

ابھی ہوں منتظر جاتی ہے چشم شوق ہر جانب

بلند اس تیغ کو ہونے تو دو سر بھی جھکاﺅں گا

مصحفی : تم کراچی میں رہتے ہو۔ انچولی جاﺅ، وہاں انجمن سادات امروہہ ہے۔ کسی سے بھی پوچھ لو کس کا شعر اچھا ہے۔ میرا ایک اور شعر ہے:

چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم

کہیں تو قافلہ نوبہار ٹھہرے گا

میر نے کہا تھا :

 رگ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں

کیا قافلہ جاتا ہے تو بھی تو چلا چاہے

سوائے قافلہ اور کیا بات ملتی ہے دونوں اشعار میں؟ اس شعر میں میر کی تقلید کہاں سے آگئی۔ قافلہ کسی کی ذاتی ملکیت تو نہیں ہوتا۔ لاکھوں قافلے ہوتے ہیں، ان میں میرا بھی تھا۔

انور : آپ میر سے ناراض ہیں؟

مصحفی : میر سے کیوں ناراض ہوں گا۔ ناراض تجزیہ اور تنقید کرنے والوں سے ہوں۔ یہ جو سفید تنگ پاجامہ پہنے کرسی پر بیٹھی ہیں یہ کون ہیں؟

انور : مجھے نہیں معلوم۔

مصحفی :

نہیں معلوم کہ کیا نام ہے اس کا لیکن

کوئی اس کوچے میں اک آہ تو بھر جاتا ہے

انور : آپ کے زمانے میں اور آپ کے زمانے سے پہلے جتنے شاعر تھے وہ کبھی کوچے میں یا پھر کسی گلی میں سارا دن ساری رات کھڑے رہتے تھے یا پڑے رہتے تھے ، شاعری کس وقت کرتے تھے؟ آپ کے چھ دیوانوں میں سے کوچے نکال دیں تو تین دیوان رہ جائیں گے۔

مصحفی : میں بہت سنجیدہ انسان ہوں، مزاحیہ سوالوں کے جواب نہیں دیا کرتا۔

انور : میں نے بہت سنجیدہ سوال کیا تھا۔ لکھنو کیوں چلے گئے؟

مصحفی : جوانی دلی میں گزارنا چاہتے تھے مگر دلی اچانک بوڑھی ہوتی نظر آئی:

اب دیکھو تو قلعی سی ان کی ادھڑ گئی ہے

تھا جن عمارتوں پر دلی کے کام گچ کا

فرش قالیں تھے سدا جن کے گھروں میں بچھتے

اب وہ بیٹھے ہیں بچھا در پہ دری کا ٹکڑا

رونے سے مرے دیدہ گریاں میں لگی آگ

یہ طرفہ کہ یاں موسم باراں میں لگی آگ

بس دلی سے دل گھبرا گیا لکھنو چلے گئے۔

آیا ہوں پھرتے پھرتے غنیمت سمجھ مجھے

کیا جانے پھر کدھر مجھے تقدیر پھینک دے

انور : لکھنو کی فضا میں آپ نے بہت زیادہ شاعری کی۔

مصحفی :لکھنو پسند آگیا۔ لکھنو میں جب تک رہے زلفوں کے اسیر رہے۔

انور : میر کی طرح ؟

مصحفی : میر زلفوں کے اسیر بھی رہے اور گنجوں کے اسیر بھی رہے۔ مجھے ان سے مت ملاﺅ۔ بہت بہت شکریہ۔

انور : میں نے آپ کا انتخاب کیا۔

مصحفی : پہلے چہرہ تو دکھاﺅ۔ کون ہیں، کیا کرتی ہیں۔ میرے لیے تم کسی کو کیسے انتخاب کر سکتے ہو۔

انور : میں آپ کی شاعری کی بات کر رہا ہوں؟

مصحفی : چلو میرے کوئی دس پندرہ شعر سناﺅ۔

انور : یہ تو آپ نے مشکل میں پھنسا دیا؟

مصحفی : یہ جو ابھی ساڑھی پہنے یہاں سے گزری ہیں، یہ کون تھیں؟

انور : پنجاب سے تعلق ہے؟

مصحفی : تعلق تو کسی سے بھی ہو سکتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ پنجاب سے ہی ہو۔

انور : ہم شاعری کی بات کر رہے تھے؟

مصحفی : سناﺅ میرے اشعار۔

انور :

گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے

آنسو بھی تلا ہوا کھڑا ہے

اے جان نکل کہ مصحفی کا

اسباب لدا ہوا کھڑا ہے

میں تیرے ڈر سے نہ دیکھا کیا ادھر شب وصل

ستارہ سحری مجھ کو آنکھ مار رہا

شب اک جھلک دکھا کے وہ مہ چلا گیا تھا

اب تک وہی سماں ہے غرفے کی جالیوں پر

کہتا تھا وہ شب ڈال کے بانہوں کو گلے میں

گردن پہ تری ہیں کئی احسان ہمارے

کاغذ تو شکایت کا تری ہم نے لکھا تھا

کوچے میں ترے جا سر بازار لگایا

مصحفی : میاں سناتے جاﺅ۔ کم بخت انتخاب کرنے والے میرے یہ اشعار کیوں بھول جاتے ہیں۔

دل لے گیا ہے میرا وہ سیم تن چرا کر

شرما کے جو چلے ہے سارا بدن چرا کر

دامان و جیب اپنا گریہ سے سب چمن تھا

تو سیر کو نہ آیا ابر بہار تھے ہم

اسی سبب تو پریشان رہا میں دنیا میں

کہ سالہا تری زلفوں کی ابتری دیکھی

آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقت صبح

آرہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں

کل قافلہ نکہت گل ہو گیا روانہ

مت چھوڑیو تو ساتھ نسیم سحری کا

اب دیکھو تو قلعی سی ان کی ادھڑ گئی ہے

تھا جن عمارتوں پر دلی کے کام گچ کا

پھٹ چکا جب سے گریباں تب سے

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں

مصحفی : میں کیسا شاعر ہوں؟

انور : ٹھرکی۔

مصحفی : یہ کیا بدتمیزی؟

انور : دل پھینک۔

مصحفی : کیا مطلب۔

انور : بہت اچھے شاعر ہیں۔ ایک مرتبہ مر چکے ہیں، جی چاہتا ہے اور مرتے رہیے۔ وقت ختم ہو گیا ہے۔

مصحفی : تمہارا۔

انور : وہ تو کبھی نہ کبھی ہو جائے گا۔ میرے پروگرام کا وقت ختم ہو چکا ہے۔

مصحفی : جاتے جاتے میرا ایک شعر اور سنا دو۔

تو شعر مصحفی کو جی سے سنے تو پیارے

پڑھ جاوے وہ تو سارا دیوان تیری خاطر

مصحفی : جیتے رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments