اقبال ؒ اور مخالفین کی ژاژ خائی


ہمارا ہمیشہ سے ہی یہ وتیرہ رہا ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ خواہ وہ علامہ اقبال ؒ ہوں یا قائد اعظم ؒؒ، فاطمہ جناح ؒ ہوں یا عبد الستار ایدھی، اور یہ سلسلہ ڈاکٹر عبد القدیر تک جاری ہے۔ کچھ عرصے سے وقتاً فوقتاً علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت کو لے کر ایک منظم طریقے سے منفی سوچ پھیلائی جا رہی ہے۔ اور یقین کیجئے ایسی ایسی تحریریں نظر سے گزرتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ہر جمہوری سوچ کا حامل شخص آزادی رائے کا قائل ہوتا ہے۔

مگر علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت بارے جو کچھ منفی سوچ کے ساتھ لکھا جا رہا ہے یا کہا جا رہا ہے وہ نہ تو آزادی رائے کے زمرے میں آتا ہے اور نا ہی اخلاقیات۔ بلکہ تاریخ اور حقیقت کے منافی من گھڑت چیزیں بتائی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے علامہ محمد اقبال ؒ کے پوتے جناب منیب اقبال کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ یہ ایک مخصوص گروہ ہے جو ایک منظم طریقے سے علامہ محمد اقبال کی کردار کشی میں ملوث ہے۔ جناب منیب اقبال کی یہ بات عین حقیقت ہے۔

”دل دریا سمندر“ میں واصف علی واصف ؒ نے علامہ کی زندگی میں کردار کشی کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور بڑی خوبصورتی سے چند سطور میں عظمت اقبال بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں :

”اعتراض کرنے والے فارمولا استعمال کرتے ہیں اور صاحب حال فارمولے سے باہر ہوتا ہے۔ فتویٰ اقبال کے خلاف تھا اور فطرت اس کی آنکھ میں خاک مدینہ و نجف کا سرمہ لگا رہی تھی۔ وہ دانائے راز بنا دیا گیا۔ اسے فقیری عطا ہوئی، قلندری ملی۔ وہ اپدیشک ہو گیا غبار راہ حجاز ہو گیا۔ مفتی اس کے خلاف رہے۔ فطرت اس کے ساتھ ہو گئی۔ اقبال کا صاحب حال ہونا مخالفین اقبال کو صاحبان حال بننے سے محروم کر گیا۔ یہ اس نگاہ کے فیصلے ہیں۔ اس کی عطا کے کرشمے ہیں۔ عمل کسی اور رخ کا ہوتا ہے، فضل کسی اور طرف پہنچا دیتا ہے۔ کوئی سمجھے تو کیا سمجھے، کوئی جانے تو کیا جانے۔“

ان سطور کے مطالعہ کے بعد اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ آج بھی جو لوگ بغض اقبال کا شکار ہیں وہ درحقیقت گھاٹے میں ہیں۔ آج بھی احساس کمتری کا شکار ادیب اور مصنف من پسند اور من گھڑت قصے کہانیاں نکال کر پیش کر رہے ہیں جو تاریخی حقائق سے ہی منافی ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے لفافے وصول کرنے والے اور ایوارڈز حاصل کرنے کے لئے قطار بنانے والے کیا جانیں؟ اقبال ؒ کو اور فکر اقبال کو ’جو ”سر“ کا خطاب لینے سے انکاری تھے کہ پہلا حق میرے استاد کا بنتا ہے اور جب تک محترم سید میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب نہیں دیا جائے گا‘ تب تک وہ ”سر“ کا خطاب نہیں لے سکتے۔ اس وقت کے گورنر پنجاب نے جب ان سے اس بابت تجسس کا اظہار کیا کہ مولوی صاحب کا کوئی ایسا کام ’کوئی تصانیف‘ جس پر انہیں خطاب دیا جائے ’تو اقبال ؒ نے فرمایا ”ان کی تصنیف میں خود ہوں“ ۔ کردار کشی کرنے والے اس ایک جملے پر غور کریں اور اپنے گریبان میں جھانکیں۔

دل کو تب بہت تکلیف پہنچتی ہے جب ٹی وی چینلز پر بیٹھے نام نہاد دانشور ’علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت میں کیڑے نکالتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت اس پائے کی نہیں کہ ان کو اس قدر اہمیت دی جائے۔ یقین جانئیے! ایسے لوگ جو دھرتی پر خود ایک بوجھ ہیں، علامہ محمد اقبال ؒ کی ذات کے انکاری ہو کر خود کو مزید ذلیل کرواتے ہیں۔ اللہ جانے یہ مغرب کی ایسی کون سی شخصیت کے گرویدہ ہیں حالانکہ اس صدی میں مغرب کوئی اقبال جیسا فلسفی نہ پیدا کر سکا بلکہ مغرب والے تو رومی کا سال منا رہے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ وہاں کی سائنسی ترقی کے گرویدہ ہیں تو پھر ایک نظر مشہور سائنسدان آئن اسٹائن کے لکھے خطوط کو دیکھ لیں جن میں آئن اسٹائن مغرب کی سائنسی ترقی کو سراہتے ہوئے اس بات پر نالاں دکھائی دے رہا ہے کہ ہنر مندی، سائنس اور تکنیک وہ ذرائع نہیں ہیں جو انسانیت کو خوشی وشادمانی دے سکیں۔

اسلامی انقلاب ایران کے مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی تصنیف ”اقبال اور ہم“ میں بڑی ہی خوبصورتی سے شخصیت اقبال کا محاصرہ کیا ہے اور کچھ یوں شخصیت اقبال کو بیان کرتے ہیں۔

”اقبال کی شخصیت وہ شخصیت ہے جو نہ تو اہل مغرب کے اس خیال کی موید ہے کہ علم ہی انسان کی نجات ارتقاء اور دکھ درد کا مداوا ہے اور نہ ہی وہ ان فلسفیوں کے ہم خیال ہیں جو انسان کی معاش اور معاشی ضرورتوں کو اس کی تمام ضرورتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہم وطنوں یعنی بودھوں اور ہندوؤں کے بڑے مفکروں کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی روح کا اس سنسارک جیون اور کرم کے چکر سے نکل کر نروان حاصل کر لینا ہی بشریت کی معراج ہے وہ اپنے ہم وطنوں کے اس خیال کے بھی قائل نہیں ہیں کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں بھوک، غلامی، ذلت و پستی موجود ہو وہاں پاک و منزہ روحیں سعادت مند اور تربیت شدہ انسان اور پاکیزہ اخلاقیات کو جنم دیا جا سکتا ہے۔

اقبال نے اپنے زمانے کے تمام فلسفیانہ اور روحانی منزلوں کو اپنی بصیرت، ایمان اور عرفان اسلامی کی سمت یابی کے ذریعے طے کیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مہاجر مسمان ہیں جو ہندوستان کے پراسرار اوقیانوس سے اٹھا اور یورپ کے پر اقتدار بلند کوہستان کی چوٹیوں کے اوپر پہنچ گیا، لیکن وہاں رہا نہیں، ہمارے درمیان لوٹ آیا، تاکہ اپنے حیرت انگیز سفر سے لائے ہوئے تحفے کو اپنی ملت کو عطا کرے اور میں اس شخصیت کو دیکھتا ہوں کہ ایک بار پھر اس نے اپنی پریشان، خودآگاہ اور دردمند نسل کے لئے بیسویں صدی میں اسلام کی ”نمونہ سازی“ کی ہے۔

وہ ان قدامت پرستوں اور رجعت پرستوں میں سے نہیں ہیں کہ جو بغیر پہچانے ہر شے سے جو جدید ہو اور جدید تمدن اور مغرب سے ہو، بلا سبب دشمنی کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ان کی مانند بھی نہیں کہ جو بغیر تنقید و انتخاب کی جراءت رکھتے ہوئے مغرب میں کھو جاتے ہیں۔ ”

ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹرمحمد جہانگیر تمیمی اپنی تصنیف ”اقبال صاحب حال“ میں مخالفین اقبال کو نہایت دلنشیں انداز سے جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”اس نور بصیرت کے حامل شخص کو محض شاعر مشرق یا پھر خطبات اقبال کے حوالے سے نعوذ باللہ“ کفر و شرک ”کے فتوے سے نوازنا ’بزعم خویش قرآنی فکر ہے تو فکر کے ایسے داعیوں سے خدا کی پناہ! ایسے صاحب حال اقبال کو ایک صاحب قیل و قال کی ژاژ خائی سے کیافرق پڑتا ہے ہے مگر عقل پرستوں اور شریعت پرستوں کی فکر ی کجہی کا تماشا لب بام آ گیا ہے۔“

قارئین کرام! علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے کسی بھی پہلو خواہ وہ ذاتی ہو یا مذہبی، سیاسی ہو یا سماجی، علمی ہو یا شخصی پر مخالفین کی زبان درازی ’محض ژاژ خائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).