مرد کا کچھ نہیں جاتا


ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بہت سی اہم باتوں کو عام تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ ایسے جملے جو عام طور پر استعمال کرتے وقت ہم نہیں سوچتے مگر سننے والے پر یہ گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ان جملوں میں سے ایک جملہ ہے

”وہ مرد ہے اس کا کچھ نہیں جاتا، تمہیں بحیثیت ایک عورت خیال رکھنا چاہیے۔“

یہ جملہ پڑھتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کو اس جملے کی کاٹ کا احساس نہیں ہوا ہو گا مگر یہ جملہ کسی بھی دھاری دار تلوار سے زیادہ گہرا زخم دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ جملہ اتنا طاقتور ہے کہ یہ ایک مرد کو جانور اور ایک عورت کو مجبور ترین بنا دیتا ہے۔ یہ ایک جملہ جہاں مرد کے حوصلے بلند کرتا ہے وہیں ایک عورت کی ہستی پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے۔ اگر عورت ایک بیٹی ہے تو والدین کی عزت اس کے ہاتھ ہے اور اگر عورت ایک بہو ہے تو سسرال کی عزت کا خیال رکھنا اس کا فرض ہے۔ یہاں خاندان سے مراد ناصرف گھر والے اور قریبی رشتے دار ہیں بلکہ ایک لمبا چوڑا خاندانی نظام ہے۔

جب ہمارے رب نے انسان کو مرد اور عورت کے پیمانے پر پرکھنے کی بجائے صرف انسانیت کے پیمانے پر پرکھنا ہے، جب اس نے اپنی مقدس کتاب میں مردوں اور عورتوں کے لئے ایک جیسے قواعد بنائے ہیں تو ہم کیوں عورت کو مرد سے کمتر سمجھتے ہیں۔ ایک مرد ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے اسلامی اور معاشرتی طور پر کچھ بھی کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ معاشرے کے قوانین اور اخلاقیات جتنی عورت پر لاگو ہیں اتنی ہی مرد پر بھی لاگو ہیں۔ اور جو بات مجھے سب سے زیادہ حیران کرتی ہے وہ یہ کہ عورت ہی دوسری عورت کو کہتی ہے کہ وہ مرد ہے اسے تو سب جائز ہے مگر تم تو خاندان کی عزت کا خیال رکھتی۔ ہم عورتوں نے ہی خود کے لئے اور مردوں کے لئے دو مختلف پیمانے بنائے ہوئے ہیں۔ اس تحریر میں میں اسلامی قواعد یا پابندیوں (مثلاً پردہ وغیرہ) کی بات نہیں کر رہی بلکہ ان قواعد کی بات کر رہی ہوں جو معاشرے میں عام ہیں۔

یہ جملہ سن کر سب سے پہلی بات جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر کیوں کچھ بھی کرنے کے باوجود مرد کا کچھ نہیں جاتا؟ کیا مرد کی عزت نہیں ہوتی جو کسی غیر اخلاقی حرکت کرنے کے باوجود اس کی عزت پر حرف نہیں آئے گا یا مرد کا تعلق کسی عزت دار خاندان سے نہیں ہوتا جنہیں اپنے بیٹے کے کیے گئے کاموں پر شرمندگی نہیں ہوتی؟ کیا مرد کے لئے صرف اس کا مرد ہونا ہی کافی ہے اور عورت کی ہر بات اس کے کردار سے شروع ہو کر اس کے کردار پر ہی ختم ہو جاتی ہے؟

آخر کیوں ایک نوکری پیشہ لڑکی جو ایک معمولی سی نوکری کرتی ہے جیسے نرس، سیکرٹری، سیلز گرل وغیرہ کے کردار کو لے کر لوگ ہمیشہ ہی متذبذب کا شکار رہتے ہیں؟ کام کے سلسلہ میں آفس والوں کے ساتھ شہر سے باہر جانے والی لڑکی پر بدکرداری کی مہر صلب کر دی جاتی ہے؟ یہ باتیں تو شاید بہت بڑی ہیں مگر اگر گلی محلے کا کوئی لڑکا اس بچاری کو تنگ بھی کر رہا ہو یا کوئی اس لڑکی کو ہراساں بھی کرے تو تب بھی لڑکی کی خاموشی ہی اس کے عزت دار ہونے کی ضمانت ہے، یہاں اس نے اپنا منہ کھولا اور وہاں بمعہ اہل و عیال اس کی عزت کی دھجیاں اڑ گئیں۔ ہم نام نہاد ماڈرن لوگ نا جانے کب اپنی سوچ کا دائرہ کار وسیع کریں گے اور مظلوم کی بجائے ظالم سے پوچھ کچھ کریں گے۔ ہم کب تک عورت کو اس کے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے روکتے رہیں گے کیونکہ وہ صرف عورت ہے اور اس کا مدمقابل ایک مرد ہے اور مرد کا کبھی بھی کچھ نہیں جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).