عوام اور صحت


صحت اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے بلاشبہ صحت کا کوئی نعم البدل نہیں قوموں کی ترقی اور سرمایہ انسانی کا تعین کرنے میں صحت کا ایک اہم رول ہے صحت مند قوم نا صرف کارگردگی اور افرادی قوت کو بہتر بناتی ہے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی بہتر کردار ادا کرتی ہے

ایک عظیم مفکر کا کہنا ہے صحت مند شہری کسی بھی ملک کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں اسی اثاثے کو محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک اپنے G۔ D۔ P کا زیادہ حصہ اپنی عوام پر خرچ کرتے ہیں پاکستان میں جو پیسہ صحت کے شعبے پر خرچ ہوتا ہے وہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے اور اسی وجہ سے ملک میں صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں صحت کے ہر شعبے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے بہترین ڈاکٹر ’مفت یا سستی دوا فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں صحت کا شعبہ گورنمنٹ کی لاپروائی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور اس شعبے کی لاپروائی کی ایک بڑی وجہ آئے دن ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے وہ بھی اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے اور ہڑتالیں کرتے ہیں۔

ہر نئی آنے والی حکومت صحت کے شعبے کے حوالے سے بہت بلند دعوے تو ضرور کرتی ہے مگر عمل نہیں کر پاتی کچھ عرصہ پہلے صحت کا شعبہ صوبوں کے ماتحت کر دیا گیا تا کہ عوام کو صحت کی سہولیات آسانی سے فراہم کی جا سکیں مگر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو سکا سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا برا حال رہتا ہے کچھ سرکاری ہسپتالوں کی یہ حالت ہے کہ لیبارٹری میں مشینری موجود نہیں اگر ہے بھی تو ناقابل استعمال ہے۔ لیبارٹری کی رپورٹس ناقابل اعتبار ہوتی ہیں۔

اکثر ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں ہوتے بے پناہ رش کی وجہ سے کتنے ہی مریضوں کی باری نہیں آ پاتی مریضوں کے لحاظ سے ڈاکٹر بہت کم ہیں اور اگر کسی کو آپریشن کروانا ہو تو مریض کو سات آٹھ مہینے کے بعد کی تاریخ ملتی ہے اس دوران مریض چاہے مر جائے ہسپتال والوں کی بلا سے ان سرکاری ہسپتالوں میں بیڈز کی شدید کمی ہے ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض زیر علاج ہوتے ہیں اور کچھ راہداریوں میں بے یارومددگار پڑے نظر آتے ہیں جو وارڈز ہیں ان کی صفائی کا بھی خاص خیال نہیں۔

بلیاں اور چوہے وارڈز میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں اور باتھ رومز کا تو حال ہی قابل بیان نہیں۔ سٹاف کی کمی کی وجہ سے ایک نرس دو دو وارڈز سنبھال رہی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اکثر نرسز چڑچڑے پن کی شکار ہوئی نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح صحت کا شعبہ بھی کمرشلائز ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پرائیویٹ ہسپتال کلینکس اور لیبارٹریاں وجود میں آ رہی ہیں یہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ صحت کے شعبے پر توجہ دے تاکہ عوام کو طبعی سہولیات فراہم کی جائیں مزید میڈیکل کالج کھولے جائیں تاکہ ملک میں ڈاکٹروں کی کمی پوری ہو سکے کچھ ڈاکٹر ڈاکٹر بنتے ہی بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں اور کچھ سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھنے والے ڈاکٹر شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں جہاں وہ مریضوں سے لاکھوں روپیہ لوٹتے ہیں اس کے باوجود وہ آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ان ڈاکٹروں نے اپنے ہر جائز ناجائز مطالبات کا حل صرف احتجاج میں ڈھونڈ لیا ہے جس دن یہ ہڑتال کرتے ہیں اس دن کتنے ہی مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کاش اس شعبے میں درد مند انسان آ جائیں اور یہ شعبہ ایک مثالی شعبہ بن جائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).