جمہوریت کی مضبوطی میں کشمیر کے مقدمے کی جیت ہے


معلوم یہی ہوتا ہے کہ اب بھی پاکستان میں بہت سے پالیسی ساز اذہان کے لئے کشمیر کا راستہ افغانستان سے ہو کر جاتا ہے۔ افغان سرزمین سے امریکی فوجی انخلا اور مستقبل کے افغانستان میں طالبان تحریک کی فیصلہ ساز حیثیت اور افغان طالبان سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا اسٹرٹیجک تعلق یہ تمام قضیے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستانی خارجہ پالیسی کے فیصلہ سازوں کی موجودہ افغان پالیسی کے پیچھے مستقبل کے افغانستان کی سرزمین کو ممکنہ طور کشمیر کی مسلح تحریک کے لئے ایک بار پھر استعمال کرنے کے ارادے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے معاملے پہ بھارتی حکومت کسی نئی مسلح تحریک کو پیشگی ہی کچلنے کے لئے کشمیر میں پہلے سے موجود قابض افواج کی ناصرف تعداد میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ اس کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر کے آئینی اور زمینی حقائق تبدیل کرنے جیسے متنازعہ اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔

خطے کے جیو پولیٹیکل مستقبل کے پیرائے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس دوران پاکستان میں ایک ایسی آزاد اور خودمختار جمہوری حکومت کی موجودگی جسے اپنی مدت حکومت میں خارجہ امور مثلاً سی پیک، افغانستان، بھارت اور کشمیر وغیرہ پہ اپنی سمجھ بوجھ استعمال کرنے کا شوق ہو، سودمند نہیں ہوگی۔ اس سارے مفروضے میں پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت محض ایک ڈمی حکومت قرار پاتی ہے۔ پاکستانی جمہور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ داخلی سماج پہ کشمیر جیسے حساس پیدائشی زخم کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تہتر سالوں میں نا صرف مشرقی پاکستان گنوایا ہے بلکہ ایک ایسے محکمے کو اس آس پہ کہ ایک روز وہ پورے کشمیر کو ہمارے نقشے میں مکمل شامل کروا کے رہیں گے، پوری ریاست کی کنجیاں تھما دی ہیں۔

اب یہ جدوجہد کہ بھائی لوگو! اب یہ کنجیاں ہمیں واپس کردو اور اپنے کرنے کے کام پہ لگو، غداری قرار پاتی ہے۔ ایسی پیچیدہ گتھی کے سلجھنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ ہیں مذاکرات، داخلی سطح پہ بھی اور خارجی سطح پہ بھی۔ تشدد سے کبھی تنازعے سلجھے ہوں یہ تاریخ عالم نے آج تک دیکھا نہیں اور پھر یہ بھی، کہ اب اور کتنا تشدد ہو؟ سیاست کے میدان میں ایک ریاست کے مشترکہ عوامی مفادات کی خاطر مختلف انواع کی کوششوں کا تنوع غداری نہیں بلکہ اگر بالغ نظری سے دیکھا جائے تو یہ ایک صحت مندانہ روش ہے۔

اگر ہمیں کشمیر پر عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرنا اور اپنے مقدمے کو مضبوط بنانا ہے تو ہمیں داخلی دور پر ایک نارمل ریاست بننا ہی ہوگا اور نارمل ریاست کا مطلب ایک مکمل جمہوری ریاست ہوتا ہے نیم جمہوری یا کنٹرول جمہوری نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).