گھوڑا چوک ، سیاست اور گھوڑے۔۔۔


ان دنوں لیہ شہر کی خوبصورتی کے لیے آنے والے فنڈز کو خوبصورتی کے ساتھ ٹھکانے لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ لیہ شہر کے معروف گھوڑا چوک پر نصب گھوڑے کا مجسمہ اتار دیا گیا ہے اس کی جگہ یہاں بیل گاڑی نصب کی جا رہی ہے جبکہ گھوڑے کو چند سو گز کے فاصلے پر واقع اسفند یار شہید چوک پر نصب کر دیا گیا ہے گھوڑے کو ادھر سے ادھر نصب کر دینے سے خوبصورتی میں کتنا اضافہ ہوگا اور بیل گاڑی کو اسفند یار شہید چوک میں نصب کر دینے سے خوبصورتی میں کتنی کمی واقع ہو سکتی تھی یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے یقیناً سرکاری مشینری کے پاس اس کا ایک سے بڑھ کر ایک جواز موجود ہوگا حکومتی پارٹی سے کچھ پوچھنا اس لیے بے کار ہے کیونکہ اوپر سے نیچے تک انہیں تمام فیصلوں اور معاملات کی خبریں میڈیا کے ذریعے پتا چلتی ہیں۔

البتہ اگر ایک اور پہلو کو سامنے رکھیں تو معاملات کی کچھ سمجھ آتی ہے کہ ہماری پوری سیاست اور تمام تر حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے کا انحصار گھوڑوں کے ادھر سے ادھر ہونے پر ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے الیکشن ہو رہے ہوں تو ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے ریس میں ممکنہ طور پر جیتنے والے گھوڑوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور پھر الیکشن کے بعد جیتے ہوئے گھوڑوں پر ہاتھ رکھا جاتا ہے ایک قسم کی گھوڑوں کی منڈی لگتی ہے بولی بھی لگائی جاتی ہے کسی دور میں چھانگا مانگا میں اکٹھا کر کے معاملات طے کیے جاتے تھے آج کل سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا ہے تمام معاملات آن لائن ہی طے ہو جاتے ہیں البتہ کارگو ہیلی کاپٹر پر کیا جاتا ہے۔

ملک میں کسی بھی جماعت کو اقتدار میں لانے اور نکالنے کے لیے تازہ دم گھوڑے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت ادھر سے ادھر ہو کر جوڑ توڑ کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ سیاست کے سیانے کہتے ہیں کوئی بھی جماعت اگر اقتدار میں آنا چاہے تو سب سے پہلے اس کے پاس گھوڑے خریدنے کی سکت ہونی چاہیے یا پھر گھوڑوں کے بیوپاریوں سے تعلقات اچھے ہوں تو پھر کسی منشور کسی نظریے اور کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی۔

صرف گھوڑے ہی نہیں اور بھی بہت سے جانوروں کا ہماری سیاست میں گہرا عمل دخل رہتا ہے خاص طور پر شیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے ہر علاقے ہر شہر اور ہر صوبے کا اپنا ایک یا کئی ایک شیر ہیں مثلاً شیر لیہ، شیر ملتان، شیر بہاول پور، شیر پنجاب اور شیر اسمبلی بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام لوگ شیر تو کہلوانا پسند کرتے ہیں مگر جانور کہنے سے ناراض ہو جاتے ہیں حالانکہ شیر بھی تو ایک جانور ہے اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ شیر بن کر الیکشن جیتتے ہیں اور گھوڑا بن کر بک جاتے ہیں الیکشن کے بعد تو ہارس ٹریڈنگ کا دھندہ باقاعدہ عروج پر ہوتا ہے یا پھر کبھی کوئی تحریک اعتماد یا تحریک عدم اعتماد ہو تو پھر بھی سیاسی گھوڑوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ریاستی سیاسی اور حکومتی معاملات میں اہم کردار ادا کرنے والی گھوڑوں کی ایک قسم کو بیورو کریسی کا منہ زور گھوڑا بھی کہتے ہیں جو ہمیشہ کنٹرول سے باہر رہتا ہے کسی بھی حکومت کو ناکام بنانے یا کامیاب کرنے میں ان کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔

گھوڑوں اور شیروں کے علاوہ بھی موجودہ حکومت میں جانوروں کو ایک خاص مقام حاصل ہے خاص طور پر حکومت نے معیشت کی بہتری کا آغاز سب پہلے وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسیں نیلام کر کے کیا اس کے بعد معیشت کس قدر مستحکم ہوئی یہ تو پتا نہیں چل سکا البتہ حکومت ہر روز کوئی نیا کٹا ضرور کھولتی رہتی ہے اسی طرح روزگار کی فراہمی اور معیشت کے استحکام کے لیے انڈوں اور مرغیوں کا بھی خوب تذکرہ رہا۔ جانوروں کی اسی اہمیت کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن نے اپنی فورسز بھی جانوروں کے نام سے بنائی ہیں پہلے تحریک انصاف نے ٹائیگر فورس بنائی تھی اس کے مقابلے میں مسلم لیگ نون نے شیر جوان فورس بنا لی ہے۔

ایک وہ جماعت ہے جو گزشتہ 35 سال تک اقتدار میں رہی اور دوسری 22 سال سے سیاسی جد و جہد کی دعویدار ہے مگر افسوس اس بات کا ہے جنہوں نے ہماری نوجوان نسل کو تعلیم صحت اور روزگار دینا تھا اور مثالی اداروں میں ان کی بہتر تربیت کر کے ریاست کا ایک ذمہ دار شہری بنانا تھا وہ جانوروں کے نام سے فورس بنا کر نوجوانوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہتے ہیں نام کا بڑا اثر ہوتا ہے سمجھ نہیں آتی ٹائیگر اور شیر کے نام سے فورسز بنا کر ہم ان سے انسانی اقدار کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔

بہر حال جس طرح حکومتیں بنانے اور گرانے میں گھوڑوں اور شیروں کا ایک رول ہوتا ہے اسی طرح ہماری خارجہ پالیسی میں تلور کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ہمارے مشرق وسطی کے دوست حکمرانوں کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کر کے ہماری خارجہ پالیسی کو موثر اور مضبوط بنانے کے لیے اپنا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یقیناً جہاں ریاست سیاست اور حکومتوں کا انحصار جانوروں، پرندوں اور گھوڑوں کے ادھر سے ادھر ہونے پر ہی موقوف ہو وہاں شاید لیہ کی ترقی، خوشحالی اور خوبصورتی بھی اسی میں مضمر ہے کہ گھوڑے چوک کے گھوڑے کے مجسمے کو ادھر سے ادھر کر دیا جائے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ شہر کی خوبصورتی کے لیے ملنے والا یہ فنڈ اگر سیوریج، صفائی، پارکوں کی حالت زار میں اور خاص طور پر کلمہ چوک سے کوٹھی قریشی تک سڑک کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا تو لیہ شہر کی خوشحالی اور خوبصورتی میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).