صاحب! ذرا بات سنیے


صاحب! میرے وجود کے نیگورنو کاراباخ میں اپنی یادوں کی جھڑپیں چھیڑ کر خود منظر سے ہی غائب ہو گئے ہو۔ صاحب یہ اچھی بات نہیں۔ کم از کم تماش بینوں میں بیٹھ کر میرا تماشا ہی دیکھتے تاکہ مجھے تسلی رہتی کہ تم میرے آس پاس ہی کہیں ہو۔ آزربائیجان اور آرمینیا کی طرح میرے دل و دماغ بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے۔ دونوں اپنی اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس پورے منظرنامے میں اگر کوئی پس رہا ہے تو وہ میری ذات ہے۔

اب اگر تم چاہو تو ترکی کی طرح دل و دماغ میں سے ایک فریق کا ساتھ دے کر دوسرے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر مصلحت سمجھو تو روس کی طرح دونوں کے مابین کوئی ثالثی ہی کرا دو۔

صاحب! کچھ نہ کچھ کرو۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مانند تم مجھے یونہی نظرانداز کرتے رہے تو کہیں میرا وجود بھی کشمیر کی صورتحال اختیار نہ کر لے۔

صاحب! لگتا ہے تمہیں اس پرائے بے حس طبقے پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی اعتماد ہے جو مجھے اس کے بھروسے چھوڑ گئے ہو؟ کیا بھول گئے ہو کہ انہی درندہ صفت کرداروں کی وجہ سے میری دیدۂ نم میں بسی غزہ کی پٹی کس طرح لہولہان ہوئی تھی؟ ذرا غور سے میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھو۔ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ میری آنکھوں کا فلسطینی حدود اربعہ سکڑتا جا رہا ہے؟

کیا بھول گئے کہ کیسے میرے خوابوں کا برما کی طرح قتل عام کیا گیا تھا؟ روہنگیا مظلوم عورتوں کی مانند میرے ارمان ہاتھ جوڑے سسک رہے تھے۔ مگر میں یہاں بھی خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ کیا تمہیں نہیں محسوس ہو رہا کہ میرا ہنستا بستا خواب نگر بھی ویسے ہی خاکستر ہو گیا ہے جیسے رنگون سے اٹھنے والی آگ نے زندہ انسانوں کو جلا ڈالا تھا؟

صاحب! یہ ذرا میرے ہاتھ تو دیکھو۔ ہتھیلی کی اس سرخی کا مطلب جانتے ہو؟ نہیں نہ۔ تو سنو!

اغیار نے عراق، شام اور افغانستان کی طرح میرے وجود سے خون کی ایسی ہولی کھیلی ہے کہ وجود کے ایک حصے سے بہنے والے لہو پر بند باندھوں تو ساتھ ہی کسی پرانے زخم سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی ایسا طبیب نہیں مل رہا جو اس مرض کا کوئی مستقل علاج ڈھونڈ دے؟

صاحب! یہ بات ذہن نشین رکھو کہ میں اپنی غیرت و حمیت کا ہر گز کسی قیمت پر بھی سودا نہیں ہونے دوں گا۔ اپنی بقا کی جنگ میں میں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور آگے بھی دوں گا۔ اہل یمن کو دیکھتے ہوئے بھوک کے مقابلے میں پیٹ پر پتھر باندھ کر مقاومت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ہزارہ برادری کی طرح اپنے ہی ارمانوں کی لاشیں سر راہ رکھ کر خاموش احتجاج بھی کیا ہے۔ نائیجیریا میں ہونے والی قتل و غارت گری پر صبر کے گھونٹ پینے والوں کی مانند اپنے احساسات و جذبات کا گلا بھی خود ہی گھونٹ دیا۔ صرف اس امید پر کہ شاید میرا صبر ان ضمیر فروشوں کا اندر جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ شاید غفلت کی راکھ سے پر وجود میں دبی انسانیت کی کوئی چنگاری ہی سلگ کر روشنی کا سبب بن جائے۔

مگر پتا نہیں کیوں صاحب، ان حالات میں جب بھی میں نے امید کے دیے جلا کر کوئی تصویر بنانے کی کوشش کی ہے تو تمھارے دھندلے نقوش سے آگے کوئی اور صورت بن ہی نہیں پاتی۔ گویا تم میری امیدوں کا مرکز و محور بن چکے ہو۔ صاحب! یاد ہے ایک بار تم سے تمہارا مذہب پوچھا تھا تو تم نے کہا تھا۔

’رحمت اللعالمین کا ماننے والا ہوں۔‘

اب تم اسے منت سماجت سمجھو یا درخواست۔ لیکن خدارا! عالمین کی اس رحمت کے کردار کی کوئی عملی شکل تو دکھاؤ۔ شہر بھر میں بکنے والے کفر کے فتووں کی وجہ سے میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ہو سکے تو میرے لیے اسی ’رحمت اللعالمین‘ کے نام پر رحمت کے ایک سائباں کا ہی اہتمام کر دو۔ شاید کسی کو مجھ پر رحم آ جائے۔ ممکن ہے یہ ظلم و ستم کا سلسلہ رک جائے۔ قوی امکان ہے کہ وہ کردار دیکھ کر اور رحمت اللعالمین کا صحیح تعارف ہو جانے پر یہاں سب جان لیں کہ جنگ و جدل کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پس اس کردار کے ساتھ ایک دفعہ واپس پلٹ آؤ۔
صاحب! اس کام میں ذرا جلدی کرو۔ کیونکہ میں اب بہت تھک چکا ہوں، تھوڑا امن و سکون چاہتا ہوں۔

اعتزاز حسن کہوٹ
Latest posts by اعتزاز حسن کہوٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).