اسلام آباد بینک وڈیو: عورت کا جسم اور باس کی مرضی


جسم عورت کا ہو اور اس کو گدھ نما ہوس زدہ مرد شکار نہ کرے، کیسے ممکن ہے؟

خلیل الرحمن قمر اور ان کے چاہنے والوں کو اب علم ہو جانا چاہیے کہ میرا جسم میری مرضی نامی نعرہ کن وجوہات کی بنا پہ بلند کیا گیا تھا۔ اگر ابھی ہٹ دھرمی باقی ہے تو پھر تازہ ترین کلپ دیکھ کر جشن منائیے جس میں بنک مینیجر کام میں شدید مصروف ہو کے بھی فراموش نہیں کرتا کہ شکار آس پاس موجود ہے۔ نہ کوئی سوچ، نہ کوئی شرمندگی، نہ کوئی ہچکچاہٹ، نہ لرزتے ہاتھ، نہ ادھر ادھر دیکھنے کا تکلف، نہ یہ پروا کہ اگر خاتون نے ہاتھ پکڑ لیا تو؟ چیخ پڑی تو کیا ہو گا؟

روز مرہ کی زندگی میں بہت سی عادات غیر شعوری طور پہ آپ کی شخصیت کا ایک ایسا حصہ بن جاتی ہیں جن کے لئے آپ کو خاص طور پہ سوچنا نہیں پڑتا۔ جیسے ڈرائیونگ کرتے وقت آپ کے سامنے کوئی آ جائے تو بریک پہ پاؤں خود بخود جا پڑے گا، ارادے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کا ہاتھ برسوں سے اس عادت کا شکار ہے سو خودکار طور پہ مصروف عمل ہو جاتا ہے، رہ نہیں پاتا۔ سوچ وبچار کی تو نوبت ہی نہیں آ پاتی۔ آپ ایک تعلیم یافتہ مرد کے ذہنی معیار کا اندازہ لگا لیجیے۔

یقیناً یہ صاحب ذاتی زندگی میں بہت سے رشتے،تعلق اور بہت سے مراسم رکھتے ہوں گے۔ ہمارا جی نہیں چاہتا یہ کہنے کو لیکن نہ جانے ان کی اماں تک یہ کلپ پہنچا کہ نہیں؟ اگر اماں نے اپنے سپوت کی یہ وڈیو دیکھ لی ہو تو خبر نہیں ان کا کیا حال ہوا ہو گا؟ اپنے اندھیرے کمرے میں بیٹھی نہ جانے کیا سوچتی ہوں گی؟ کیا کیا خیال نہیں آتے ہوں گے؟ ان کی بیٹیوں کا بھائی سرعام کسی اور کی بیٹی کے جسم پہ اپنی مرضی نافذ کر رہا ہے۔

ہمیں تو ان صاحب پہ بھی تعجب ہے جنہوں نے وڈیو بنا کے وائرل کر ڈالی۔ کیا ہی خوب ہوتا کہ اس ظلم کے خلاف وہیں اسی عورت کے ساتھ جا کھڑے ہوتے اور اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے۔ احتجاج کے لئے کربلا کا میدان ہونا ہی تو ضروری نہیں۔ ہمارے خیال میں تو کربلا دن رات آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، بس احساس کی لو سینے کے اندر روشن ہونی چاہیے۔

ہم ایک مرتبہ ڈیوو بس سروس سے سفر کر رہے تھے۔ ہماری دوسری طرف کی سیٹ پہ ایک ایسے ہی صاحب تشریف فرما تھے جو اپنی عادت سے مجبور تھے۔ ہم نے کچھ دیر بعد غور کیا کہ جونہی میزبان لڑکی پاس پہنچنے والی ہوتی، ان کا گھٹنا سیٹ سے نکل کر درمیانی جگہ پہ پھیل جاتا اور خود کو ایسے ظاہر کرتے کہ گویا اونگھ رہے ہیں۔ وہ ٹکراتی ہوئی گزر جاتی، تو گھٹنا پھر اپنی جگہ پہ واپس چلا جاتا۔ ہم یہ دیکھ کر چپ نہ رہ سکے اور ان صاحب سے پوچھ بیٹھے کہ ان کے گھٹنے اور ٹانگ میں کوئی تکلیف ہے کہ اپنی سیٹ پر ٹکتا ہی نہیں۔ ایسا کہتے ہوئے ہماری قہر آلود آنکھیں اور جلالی لہجہ انہیں سمجھانے کے لئے کافی تھا۔

وڈیو دیکھ کر رنج کے ساتھ تاسف بھی ہے کہ اس خاتون نے مرد سے احتجاج کیوں نہیں کیا؟

پھر یونہی خیال آیا کہ جب پورا معاشرہ لڑکیوں کو غلط ثابت کرنے اور نکو بنانے پہ تلا ہو تو کیسے کسی متوسط گھرانے کی لڑکی میں اتنی جرات رہ جاتی ہے کہ صدائے احتجاج بلند کرے۔ ذرا سوچیئے نہ جانے کس مشکل سے گھر سے نکلی ہو گی ؟ کتنی پابندیوں کی زنجیریں توڑی ہوں گی؟ کتنی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے اپنی معاشی آزادی ڈھونڈنے نکلی ہو گی؟ ملازمت چھن جانے کا خوف، کسی دور افتادہ علاقے میں تبادلے کا ڈر، باس سے غلط رپورٹ کی فکر، کیسے زبان کھولے اپنی؟ کس کو اپنی بے گناہی کا یقین دلائے ؟ کس کو گواہ بنائے ؟

ہمیں یقین ہے کہ معاشرے کے بہت سے افراد آج ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوں گے،

“دیکھا اس لئے ہم دفتروں میں کام کرنے سے منع کرتے ہیں”

“شکر ہے، میں نے اپنی بہن کو سکول کالج کی ہوا نہیں لگنے دی”

“دیکھا،عورتیں ہی بے غیرت ہوتی ہیں”

“ہور چوپو”

“عورت کو آزادی ملنی ہی نہیں چاہیے”

“یہ آج کل کی لڑکیاں، بڑا شوق ہے نا مردوں کے ساتھ کام کرنے کا”

“چلیں اب تو کان ہوں گے انہیں”

اور وہیں کہیں کوئی باپ جس نے بیٹی کو تعلیم دلوا کر معاشی خود مختاری کے خواب بن رکھے ہوں گے، سر نہوڑائے، نم آنکھوں کے ساتھ سوچتا ہو گا، کیا میری نازوں کی پالی کا جسم ایسے ہی پامال ہو گا؟

ہمیں ایسے تمام والدین سے کہنا ہے کہ بیٹی کے وجود سے یا اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی پہ شرمندگی محسوس نہیں کیجیے، اپنی بیٹی کو زبان عطا کیجیے۔ وہ الفاظ سکھائیے اور اتنی بار سکھائیے کہ جب کوئی ہوس کا مارا اپنی عادات سے مجبور ہو کے کسی جرم کا مرتکب ہو، اس وقت آپ کی بیٹی اور آپ کی بہن نڈر ہو کے واویلا اور چیخ و پکار کرے اور پھر ببانگ دہل اعلان کرے کہ

“ سنو غاصب یہ میرا جسم ہے اور اس کی مالک میں ہوں، اس پہ میری مرضی چلتی ہے۔ میں وہ ہاتھ توڑنے کی ہمت رکھتی ہوں جو میرے جسم کی سرحد پار کرے گا”

اپنی بیٹیوں کو اندھی کوٹھڑیوں میں قید کرنے کی بجائے اعتماد دیجیے، عزت ووقار کے ساتھ اپنی ذات کا تحفظ کرنا سکھائیے، گلا مت گھونٹیے، وار کرنا سکھائیے۔

آج ہم اپنے ان تمام قارئین (خواتین وحضرات) سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں جو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے تابڑتوڑ کمنٹس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہماری تحریریں دیوانے کی بڑ ہوتی ہیں، ہم ان سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ دیکھ لیجیے انہی جیسوں کی ہم بات کرتے ہیں۔ انہی جیسوں کے کیے دھرے پہ ہم آنسو بہاتے ہیں اور جو ان جیسے نہیں ہوتے، ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ شعور کی اس راہ پہ ہمارے ہمراہ قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔ عورت کو جینے کا حق دیں گے اور ہمارے ساتھ مل کر کہیں گے،

“ مان گئے ہم! یہ تمہارا ہی جسم ہے اور تمہاری ہی مرضی چلے گی”

https://tribune.com.pk/story/2271529/banker-sacked-arrested-after-being-caught-on-tape-groping-female-employee-in-islamabad


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).