سب رنگ کہانیاں (2) : حسن رضا گوندل کی سب رنگ سے عقیدت کا کمال


ًسب رنگ ً ڈائجسٹ میں غیر ملکی کہانیوں کے تراجم پڑھ کر ہمیں بھی عالمی ادب پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن ہم جیسے چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کا المیہ ہے کہ ان شہروں میں کتابوں کی دکانیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں جن میں انگریزی زبان کی کتب نا پید ہی ہوتی ہیں۔ کلاسیک ادیبوں کی کتابیں تو پھر کالج کی لائبریری سے مل ہی جاتی تھیں لیکن دوسری اچھی اور نئی کتابوں کے لئے بڑے شہر جانا پڑتا تھا۔ جب انگریزی ادب کا چسکا ہمارے منہ کو لگ گیا تو پھر ان کتابوں کی کھوج بھی شروع ہوئی۔

ایسی ہی کتابوں کے لئے ہمارا بڑے شہروں کو آنا جانا ہو گیا۔ پھر ہم نے سڈنی شیلڈن۔ جیکی کولنز۔ ہیرالڈ رابنز۔ ماریو پوزو۔ مائیکل کرکٹن۔ جون گریشم۔ رابرٹ لڈلم اور جوزف ہیلر سمیت بہت سارے روسی اور دوسری زبانوں کے ادیبوں کو بھی پڑھ ڈالا۔ بخدا یہ بتانے میں کوئی اپنی بڑائی مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ًسب رنگ ًنے ہمیں ادب پڑھنے کا سلیقہ سکھا دیا۔

سب رنگ کہانیاں کی پہلی جلد کی اشاعت کے بعد حسن رضا گوندل سے فون پر پاکستان سے بات ہوئی تھی۔ دو ماہ پہلے جب برمنگھم آنا ہوا توسوچا کیوں نہ ان سے بالمشافہ ملاقات کی جائے اور ساتھ ہی انہیں اپنی تصنیف ً مشاہدات وتاثرات ً بھی پیش کی جائے۔ ان سے فون پر رابطہ ہواپھر ان سے ان کے گھر ملنے کا پروگرام بن گیا۔ ان کا میرے ذہن میں ایک خاکہ بنا ہوا تھا۔ جب میں ان کے گھر پہنچا توایک بہت ہی مہذب، شریف سے سادہ جوان نے دروازہ کھولا۔

میں نے حسن رضا سے ملنے پر استفار کیا تو جواب ملا کہ میں ہی حسن رضا ہوں۔ چوہان راجپوت اور منڈی بہاؤالدین کا رہائشی ہوپھر بہترین تعلیمی بیک گراؤنڈ کا گورنمنٹ کالج کا پوسٹ گریجویٹ لیکن اتنا سیدھا سادہ شریف آدمی میرے بنائے ہوئے خاکے کے بالکل برعکس ثابت ہوا تھا۔ باتیں شروع ہوئیں تو ایک گھنٹے کی ملاقات پانچ گھنٹوں تک کیسے چلی گئی، پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کی مہمان نوازی کا میں ہمیشہ مشکوررہوں گا۔

ملاقات میں ان کے منڈی بہاؤالدین کالج۔ گورنمنٹ کالج لاہور۔ سب رنگ سے ابتدائی عشق اور شکیل عادل زادہ سے عقیدت۔ برطانیہ میں مستقل آمد تو ایک تعارف تھا۔ لیکن سب رنگ کیسے اکٹھے ہوئے۔ سب رنگ کی کہانیوں کی یو ٹیوب پر اشاعت۔ مختلف شماروں میں مختلف موضوعات پر کہانیوں کی سکینگ اور مختلف فائیلوں کی تیاری۔ سب رنگ کا فیس بک پیج۔ محترم شکیل عادل زادہ سے ملاقاتیں۔ سب رنگ میں شائع شدہ تراجم کی کتابی شکل میں اشاعت۔

دوسری کہانیوں کو یکجا کر کے ان کی کتابی شکل میں اشاعت اور بازی گر کی آخری قسط اور ایسے کتنے ہی مو ضوعات تھے جن پرگفتگو ہوئی۔ وہ تفصیل انشا اللہ ایک علیحدہ مضمون میں لکھوں گا۔ اس کے بعد وہ کمال مہربانی سے میری رہائش پر مجھے چھوڑ بھی گئے۔ سب رنگ کہانیاں کی دوسری جلد کابتایا کہ چند دنوں تک آ جائے گی۔ مجھے کچھ پریشانی ہوئی کہ یہاں برطانیہ میں وہ کیسے حاصل ہو گی۔ تین چار دن پہلے کی بات ہے ان کا فون آیا۔ شاہ جی اس وقت کہاں ہیں۔ میں تو گھر پر ہی ہوں، میں نے جواب دیا۔ اچھا، پھر میں آ رہا ہوں اور پھر پندرہ منٹ بعد وہ آئے اور کھڑے کھڑے کتاب دے کر واپس چلے گئے۔ وہ جوانی والی پھرتی تو اب نہیں رہی لیکن پھر بھی دو دن لگا کر میں نے ساری کہانیاں پڑھ ہی لیں۔

سب رنگ کہانیوں کے دوسرے مجموعے میں تیس کہانیوں کا انتخاب کیا گیا ہے گو اس کتاب کے صفحات پہلی جلد سے کم ہیں لیکن کہانیوں کا انتخاب ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ میں نے سب رنگ میں پہلے بھی یہ کہانیاں پڑھی ہوئی ہیں، کیونکہ ہمارا اور سب رنگ کا ساتھ ہماری نوعمری میں ہی ہو گیا تھا اس لئے ہم وقت سے پہلے ہی سنجیدہ ادب کے پجاری ہو گئے تھے۔ جیسے ہی کوئی کہانی شروع کی فوراً اس کا خاکہ ذہن میں آ جاتا رہا۔ اس کتاب کا گیٹ اپ بھی پہلی جلد جیساہی معیاری ہے صرف کور کا رنگ تبدیل ہوا ہے۔ کتاب کی خوبصورتی ً بک کارنر جہلم ً والوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے سابقہ معیار کو برقرار رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).