پی ڈی ایم اور نواز شریف کا بیانیہ


دو سال قبل تبدیلی کا سفر بہت سے وعدوں اور دعووں کے ساتھ شروع کیا گیا۔ کپتان کا دعویٰ تھا کہ وہ خراب معیشت کی بحالی، بلا تفریق احتساب، بہتر طرز حکمرانی اور کامیاب سفارت کاری سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ اور عوام سے کیے گئے بہت سے وعدوں میں پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے قابل ذکر وعدے بھی شامل تھے۔ کشکول توڑنے کے دعویدار عمران خان نے جب اعلان کیا کہ وہ قرض یا امداد لینے کی بجائے پھانسی قبول کر لیں گے تواس اعلان نے ان کی عوامی مقبولیت کو ایک معراج عطا کردی۔ اس وقت کے میڈیا نے ایک کہرام مچا دیا اور تبدیلی کی دھن پر ناچ ناچ کر گھنگرو توڑ ڈالے۔

25 جولائی سے تبدیلی کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ وعدوں اور دعووں کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت آیا تو پھر چراغوں میں روشنی نا رہی۔ تبدیلی کے سفر کے پہلے سال میں ہر خراب معاشی سرگرمی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرایا گیا۔ خراب معیشت کی بحالی کے لیے مزید قرض لیا جانے لگا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2018 میں ملک کے مجموعی قرضے 230 کھرب 24 ارب سے بڑھ کر مارچ 2020 میں 314 کھرب 52 ارب روپے ہو گئے۔ کپتان کے عہد حکمرانی میں 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض لیا گیا جس میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوئی جبکہ 7 ارب ڈالر کپتان کی بہترین معاشی ٹیم کی صلاحیتوں کی نذر ہو گئے۔

ایک عام پاکستانی کا ان قرضوں سے نا پہلے کوئی لینا دینا تھا نا ہی اب کوئی سروکار ہے۔ عوام تو یہ دیکھتے ہیں کہ اشیائے ضروریہ کے نرخ کیا ہیں اور روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں آٹا 32 روپے سے 65 روپے اور چینی 55 روپے فی کلو سے بڑھ کر 105 روپے کلو ہو چکی ہے۔ اور ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کی حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے سالانہ پلان کی رپورٹ برائے 21۔ 2020 کے مطابق ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کی توقع ہے۔ ابھی تو یہ محتاط حکومتی رپورٹ ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بے روزگاری کی شرح اس سے کہیں بڑھ کرہے۔

ان حالات میں حکومتی کارکردگی نے اپوزیشن کے لیے ایک ساز گار ماحول بنا دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کی کسی بھی تحریک سے قبل بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافہ اور مہنگائی، بے روزگاری کے سبب عوام کی صداے احتجاج بلند ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ان حالات میں اگر اپوزیشن محض نالائق، نا اہل طرز حکمرانی کا بیانیہ لے کر نکلتی تو اس کو خاطر خواہ کامیابی جلد ہی مل جاتی۔ تاہم پی ڈی ایم کے زیر اہتمام گوجرانوالہ کے جلسہ میں نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی تقریر نے پورے سیاسی ماحول کو یکسر بدل ڈالا۔

ایک ایسی تقریر جس کی توقع شاید کوئی نہیں کر رہا تھا۔ اگر یہ تقریر پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تو پھر یقینی طور پر میاں نواز شریف نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے سولو فلائٹ لینے کی کوشش کی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اپوزیشن اتحاد کے متفقہ بیانیے کی بجائے فرد واحد کا بیانیہ کیسے سب کے لیے قابل قبول ہو سکتا تھا۔

شاید اسی سبب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے نواز شریف کے بیانیے سے بظاہر لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کا موقف پی ڈی ایم کا متفقہ موقف نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں اس بنیادی نکتے پر بات ہوئی جس کے بعد 13 نومبر کے اجلاس میں متفقہ بیانیہ یا پھر میثاق کے لیے تجاویز مانگ لی گئیں جن کو 14 نومبر کے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کر کے عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میثاق میں نواز شریف کے بیانیے کو کتنی جگہ ملتی ہے۔ بظاہر اس کے امکانات کم ہی ہیں کہ پی ڈی ایم میاں نواز شریف کے موقف کو من وعن تسلیم کرلے اور ایک اندازہ ہے کہ شاید آئندہ جلسوں میں کی جانے والی تقاریر میں کسی شخص کا نام لے کر الزام نہیں لگایا جائے گا۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم اپنے احتجاج کو حکومت کے خاتمے تک محدود کردے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر توقع کی جا سکتی ہے کہ پی ڈی ایم کو کچھ نا کچھ کامیابی مل سکے۔ اس سب کے باوجود اگر میاں نواز شریف اپنے بیانیے پر قائم رہتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کو پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم چھوڑنا پڑ جائے۔ تو کیا میاں نواز شریف کی جماعت میں اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے قائد کے بیانیے کا بوجھ اٹھا سکے۔ فی الوقت تو عبدالقادر بلوچ اور ثنا اللہ زہری پارٹی چھوڑ چکے ہیں اگر میاں صاحب بضد رہے تو کوئی بعید نہیں کہ پارٹی کے دیگر بہت سے لوگ معذرت کر لیں۔ اس ضمن میں بہتر ہے کہ میاں نواز شریف ایک بار اپنے بیانیے پر پھر سے غور کر لیں ممکن ہے کوئی بہتر صورت نکل آئے۔

لگے ہاتھوں گلگت بلتستان کے انتخابات کا ذکر بھی کر لیں۔ 15 نومبر کو پولنگ ہوگی اور اس وقت انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے۔ تحریک انصاف، نون لیگ اور پیپلز پارٹی بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ پری پول رگنگ کی آوازیں آنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات کو جعلی کہنے والی سیاسی جماعتوں کو گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لینا چاہیے تھا۔ آخر کس امید پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی وہاں پر انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔

صاف شفاف انتخابات کی واضح یقین دہانی کے بغیر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو کامیابی نہیں ملنی اور نتیجہ یہ کہ گلگت بلتستان کے یہ انتخابات تحریک انصاف جیت جائے گی۔ اور نشستوں کے اعتبار سے اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی دوسرے اور نون لیگ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعتیں ہوں گی۔ اور اگر نتائج اسی طرح کے آئے تو کون ان نتائج کو تسلیم کرے گا اس پر بھی ارباب اختیار کو سوچنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).