ڈبلیو ایچ او کرونا وائرس کی تحقیقات کی معلومات کا تبادلہ نہیں کر رہا: امریکہ کا شکوہ


امریکہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے شکایت کی ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں کرونا وائرس کی جائے پیدائش سے متعلق اپنی تحقیقات کے بارے میں اب تک معلومات فراہم نہیں کیں۔

امریکی محکمۂ صحت کے اہلکار گیرٹ گرسبی نے منگل کو ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کے دوران کہا کہ کرونا وائرس کی تحقیقات کے سلسلے میں قائم ڈبلیو ایچ او کے مشن نے چین میں اپنی تحقیقات کے بارے میں معلومات کا تبادلہ دیگر اقوام سے نہیں کیا۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ چین میں کرونا وائرس سے متعلق جن امور پر تحقیقات کی جانی تھی اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او نے تمام رکن ممالک سے شفاف انداز میں بات چیت نہیں کی۔

گیرٹ گرسبی کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی اس حوالے سے بھی شفاف اور جامع تحقیقات ہونی چاہیے۔

یاد رہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی قیادت میں ایک تحقیقاتی ٹیم نے چین میں جانوروں سے کرونا وائرس کی پیدائش سے متعلق تحقیقات کی تھی تاہم بعض سائنس دان فکر مند ہیں کہ اب تک جو تحقیقات ہو چکی ہے اس کی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔

کرونا وائرس کیسے پھیلا؟ عالمی ادارے کی ٹیم کے ووہان میں ماہرین سے انٹرویو

منگل کو ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک کے درمیان بذریعہ ویڈیو لنک ہونے والے اجلاس کی سربراہی نیوزی لینڈ کی سابق وزیرِ اعظم ہیلن کلارک کر رہی تھیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ممالک کرونا وائرس کے پہلے کیس سے لے کر اس کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات سے متعلق جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک آزاد پینل کو یہ جاننا ہو گا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے اور یہ وبا اب بھی پھیل رہی ہے اور اس کی وجہ کیا ہے۔

کلارک نے کہا کہ ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ڈبلیو ایچ او کے پاس عالمی وبا کی انسداد کے لیے اختیارات، صلاحیت اور مالی معاونت ہے یا نہیں؟

'ڈبلیو ایچ او نے لوگوں کو چین سے نہ نکالنے کی سفارش کی'

کلارک نے عالمی ادارۂ صحت اور اس کے رکن ممالک خاص طور پر چین پر تنقید کرنے میں احتیاط برتی اور کہا کہ ڈبلیو ایچ او اور عالمی نظام کس حد تک ملکوں کی ضروریات اور ان کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت کئی ناقدین یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کا مبینہ طور پر چین کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے اور عالمی ادارۂ صحت کرونا وائرس کی جائے پیدائش سے متعلق معلومات کو چھپا رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس گیبراسس نے پیر کو مزید فنڈز فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

گزشتہ ماہ جرمنی اور فرانس نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کو کرونا وائرس کی تحقیقات کے سلسلے میں مزید اختیارات دینے کی ضرورت ہے اور اس کی فنڈنگ میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ پر کرونا وائرس سے متعلق درست معلومات فراہم نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکہ کو عالمی تنظیم سے الگ کرنے اور اس کی فنڈنگ روکنے کا اعلان کیا تھا۔

عالمی ادارۂ صحت کو چھوڑ رہے ہیں، امریکہ نے اقوامِ متحدہ کو بتادیا

امریکہ کے آئندہ متوقع صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کو ڈبلیو ایچ او میں شامل رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے 12 لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور پانچ کروڑ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی وبا کے انسداد کے لیے مختلف ملکوں میں ویکسین کی تیاری کا عمل بھی جاری ہے۔

امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی بنائی گئی تجرباتی ویکسین کرونا وائرس کے علاج کے لیے 90 فی صد مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ کمپنی نے اس ویکسین کو بڑی کامیابی بھی قرار دیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa