افغانستان میں آسٹریلوی فوج کے مبینہ ‘جنگی جرائم’ پر کارروائی کا آغاز


آسٹریلیا نے فوجی اہلکاروں کی افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم پر قانونی چارہ جوئی کا آغاز کر دیا ہے۔ جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عام شہریوں اور قیدیوں کی ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے سنجیدہ نوعیت اور ممکنہ طور غفلت پر مبنی جرائم کی تحقیقات کے لیے خصوصی تفتیشی افسر مقرر کیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم نے یہ اقدام اس لیے لیا ہے تاکہ ایسا کوئی بھی معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جانے سے روکا جا سکے۔

امریکہ میں 11 ستمبر 2001 پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگان سمیت چار مقامات پر حملے ہوئے تھے جس کے بعد واشنگٹن نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تھا۔ افغانستان پر حملے میں آسٹریلیا نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور اپنے 26 ہزار سے زائد فوجی اہلکار افغانستان طالبان، القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجے تھے۔

آسٹریلیا نے افغانستان سے جنگ کے لیے بھیجی گئی فوج کو 2013 میں واپس بلا لیا تھا۔ لیکن اس کے خصوصی دستے وہاں رہے۔ 2013 کے بعد افغانستان میں آسٹریلیا کی اعلیٰ ترین فوجی یونٹس کے طرزِ عمل پر شدید نوعیت کے الزامات لگنے شروع ہوئے تھے۔

‘اے ایف پی’ کے مطابق آسٹریلیا کی فورسز پر الزام لگا کہ انہوں نے ایک گھر پر چھاپہ مارا۔ اس چھاپے کے دوران ایک چھ سالہ بچے کی ہلاکت ہوئی تھی۔

اسی طرح ایک پرواز میں ہیلی کاپٹر میں جگہ کی کمی کے باعث ایک قیدی کو گولی مار کر قتل کرنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔

آسٹریلیا کی حکومت کئی سال تک اس مبینہ غلط طرزِ عمل سے متعلق رپورٹس کو دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ جب کہ پولیس ان رپورٹس پر تحقیقات اور ان معاملات میں ملوث لوگوں کو سامنے لانے کوشش کر چکی ہے۔

دوسری جانب آسٹریلیا کے دفاعی افواج کے انسپکٹر جنرل کئی مبینہ معاملات میں سے کچھ کی اندرونِ خانہ تحقیقات کر چکے ہیں۔ ان تحقیقات کو ‘مسلح تنازع میں قانون کی ممکنہ خلاف ورزی’ کی ‘افواہیں اور الزامات’ کا نام دیا گیا تھا۔

انسپکٹر جنرل نے 50 سے زائد واقعات کی نشان دہی کی تھی جن میں عام افراد یا جنگ میں عدم شریک لوگ یا عسکریت پسندی ترک کرنے والے جنگجوؤں کو غیر قانونی طور پر قتل کیا گیا تھا۔ یا ان افراد کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ اختیار کیا گیا تھا۔

وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں انسپکٹر جنرل کی تیار کردہ نظرِ ثانی شدہ رپورٹ جاری کر دی جائے گی۔ البتہ یہ آسٹریلوی عوام کے لیے ایک سخت اور مشکل خبر ہو گی۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے پراسیکیوٹر کی تقرری کو ایک انتہائی اہم اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس سے ممکنہ طور پر کئی فوجی عہدیداران پر قانون کی خلاف ورزی کے فوجداری الزامات لگ سکتے ہیں۔

وزیرِ اعظم کے مطابق فوج میں خدمات انجام دینے والے ماضی اور حال کے مرد اور خواتین آسٹریلیا کی عوام کی امیدوں اور خواہشات میں شریک ہیں۔ اور کیسے وہ اپنے ضابطۂ کار پر عمل کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آسٹریلیا کی عوام کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا۔ ہمیں اس معاملے سے دیانت داری اور واضح حقیقت کے ساتھ پیش آنا ہو گا۔

‘اے ایف پی’ کے مطابق یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر آسٹریلیا ان الزامات کی تحقیقات میں ناکام رہا تو بین الاقوامی فوجداری عدالت اس معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا پراسیکیوٹر کا تقرر بین الاقوامی فوجداری عدالت کی اس معاملے میں مداخلت کے امکانات کو کم کرنے کی کوشش ہے؟ وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا تھا کہ امید تو یہی ہے۔ یہ ایک اہم اقدام تھا جو اس معاملے پر کیا گیا ہے۔

عالمی فوجداری عدالت کے اہلکاروں پر امریکی پابندیاں

انہوں نے بتایا کہ مسلح افواج کے روایتی طریقۂ میں بہتری کے لیے ایک آزاد پینل بھی مقرر کیا گیا۔ یہ پینل اس تحقیقات کے دفاع میں دیے جانے والے مؤقف کا بھی نگران ہو گا۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ 2017 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب سرکاری نشریاتی ادارے ‘اے بی سی’ نے ‘افغان فائلز’ کے حوالے سے رپورٹس دی تھیں۔ ان رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ آسٹریلیا کی افواج کے اہلکار افغانستان میں غیر مسلح افراد اور بچوں کے قتل میں ملوث ہیں۔

‘اے بی سی’ پر یہ رپورٹس نشر ہونے کے بعد آسٹریلیا کی پولیس نے سرکاری نشریاتی ادارے کے رپورٹر ڈینئل اوکاس اور پروڈیوسر سیم کلارک کے خلاف خفیہ معلومات تک رسائی کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔ بعد ازاں پولیس نے گزشتہ برس یہ کیس ختم کر دیا تھا۔ البتہ اس دوران پولیس نے سڈنی میں ‘اے بی سی’ کے ہیڈ کوارٹر پر بھی چھاپہ مارا تھا۔

وفاقی پولیس کیس ختم کرنے کی وجہ مفاد عامہ، جمہوریت اور عوامی مفاد کے لیے کی جانے والی صحافت کو قرار دیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa