آ صف مسیح کے ساتھ زیادتی سے بڑی زیادتی


مورخہ 25 جون 2020 کو بوقت 10 بجے دن احمد آ باد گلی نمبر 10 کی رہنے والی فر ح شاہین مسیحی بچی کو خضر حیات نے اغوا کیا۔ اور اپنے دوستوں کے ہمراہ کیری ڈبے میں لے گیا۔ فرح شاہین آ صف مسیح کی بیٹی ہے اور اپنے سات بہن بھائیوں میں دوسر ے نمبر پر ہے اور فرح شاہین اور اس کا ایک بھائی وقاص دونوں جڑواں ہیں اور دونوں کی عمر تقریباً 12۔ 13 سال ہے۔ فرح شاہین کا والد آ صف مسیح رکشہ ڈرئیور ہے اور اپنے سات بچوں کے ہمراہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔

فرح شاہین کی والدہ فوت ہو چکی ہے اور فرح ہی اپنے گھر کا سارا نظم و نسق چلاتی تھی۔ فرح کے گھر فرسٹ فلور پر ہے اسی کے گراؤنڈ فلور پر ایک ٹینٹ شاپ ہے جہاں خضرحیات نامی بندہ کام کرتا تھا۔ خضر حیات کی عمر 44۔ 45 سال ہے اور وہ پہلے سے شادی شدہ اور دوبچوں کا باپ ہے۔ فرح کے والد نے بتایا کہ یہ واقعہ مورخہ 25 جون 2020 کو پیش آیا، میں اس وقت اپنا رکشہ لے کر مزدوری پر گیا تھا کہ واپس آ کر مجھے فرح کے اغوا کی رپورٹ ملی۔

شروع میں ہم نے کافی ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر فرح کا کوئی پتہ نہ چلا۔ آ صف مسیح نے اگلے ہی دن پولیس اسٹیشن سرگودھا روڈ میں درخواست دی جس میں کوئی کافی دن گزرنے کے بعد کارروائی نہ ہوئی تو میں نے اپنے رشتہ داروں اور محلے داروں کو اپنا دکھ سنایا تو میری فیملی ممبرز نے نامعلوم درخواست واپس لے کر اور زور دیا کہ پہلے کسی کو نامزد کریں پھردرخواست دیں گے۔ ہم نے بہت ڈھونڈا آ خر کار تین ماہ کے بعد ہمیں فرح اور خضر حیات کا پتہ چل گیا تو ہم نے درخواست دی۔

درخواست دینے کے بعد پولیس نے کافی عرصہ ایف آئی آر نہ کاٹی بلکہ الٹا آ صف مسیح کو ہراساں کرتی رہی اور مذہبی منافرت کا نشانہ بناتی رہی۔ آصف مسیح نے عدالت میں رٹ کے ذریعے ایف آئی آ ر کروائی۔ تو مجبوراً آئی او نے ایف آئی آ ر کاٹ دی اور آ صف مسیح کو رات رات بھر ہراساں کرتا رہا کہ خضر حیات کو ڈھونڈنے میں ہمارے ساتھ چلے۔ چونکہ آصف مسیح کی بیوی پہلے ہی فوت ہو چکی تھی اور بچے چھوٹے ہونے کی وجہ سے آ صف مسیح کے انکار کرنے پر اسے گالیاں دیتا رہا۔

آ صف مسیح نے جب ملزم اور اپنی بیٹی کو پکڑوا دیا تو آئی او نے آ صف مسیح کی جانب سے پیش کیا گیا ب فارم جس میں واضح طور فرح شاہین کی عمر 12 سال لکھی تھی کو پولیس فائل کا حصہ نہ بنا کر ملزم اور بیٹی کو عدالت میں 17 سال کا بتا کر فرح کا بیان ریکارڈ کروا دیا۔ اور اس ساری کارروائی کے متعلق آ صف مسیح کو یہ بتایا کہ اب آپ کا میرے پاس کیس نہ ہے بلکہ میں کسی ایس ایچ او صاحب کے دے دیا۔ آ صف مسیح نے مزید بتایا کہ اب پولیس نے ہمیں بتائے بغیر فرح شاہین کو عدالت میں پیش کر کے اس بیان کروا کر میری بیٹی کو خضر حیات کے ساتھ بھیج دیا۔

انوسٹی گیشن افسر مصدق صاحب سے بذریعہ فون میں نے جب اس بارے میں معلومات لیں تو اس نے بتایا کہ ہم نے لڑکی کو عدالت میں پیش کر دیا تھا میں نے مصدق صاحب سے سوال کیا کہ جب بچی کی عمر 13 سال ہے تو آپ نے کیسے اسے عدالت میں پیش کیا۔ تو انہیں نے بتایا کہ لڑکی نے ہمیں خود سترہ سال کا بتایا تھا۔ میں نے آصف صاحب کا سوال ان سے کیا کہ آ پ نے ب فارم پولیس فائل کے ساتھ لف کیوں نہیں کیا تو وہ اس بات سے انکاری ہو گئے کہ ہمیں ب فارم ملا ہی نہیں۔

اس ساری صورتحال میں نکاح خواں کا کردار بھی سوالیہ نشاں ہے ان سب کی سہولت کاری واضح ہے کہ کیسے سہولت کار ملزمان کو چندہ روپوں کے لئے آسانی مہیا کرتے ہیں کہ وہ نابالغ اور کمزور طبقات خصوصاً اقلیتوں کی بیٹیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور ریاست کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ کمزور طبقات کے مسائل کو نظر انداز کر کے اور ہوس کے پجاریوں کو قانونی مدد فراہم کر کے ریاست اپنے شہریوں کے جان مال کے تحفظ میں بھی ناکام ہو رہی ہے اور چند لوگوں کے مفاد کو قانونی سپورٹ دے کر اپنے منہ پر کالک بھی مل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).