عرفان محسود اگر قبائلی نہ ہوتا تو؟


حیات محسود

\"hayat-mehsud\"ایک طرف قبائلی خطے میں دہشت گردی کا نزول، دوسری طرف غربت اور پسماندگی، اور سب سے بڑھ کر ایسے حالات میں اپنا وطن چھوڑنا اور دور دراز کے شہروں میں پناہ لینا، یقیناً یہ باتیں اور یہ درد عام پاکستانیوں کو معلوم و محسوس نہیں ہو سکتیں، یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جو ایسے حالات سے گزرا ہو، جس نے اپنا گھر چھوڑا ہو، بھاگ کر اپنی اور اپنے بڑوں، بچوں اور بچیوں کی جانیں بچائی ہوں۔ اور ٹھٹرتی سردی، اور بلبلاتی گرمی میں ایک پتلے ٹینٹ میں بچوں اور بوڑھوں کی سردی/گرمی سے کراہتی آوازوں اور سسکیوں میں وقت گزارا ہو۔ یہ درد اے سی اور ہیٹر لگا کر گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم کمروں میں بیٹھنے والوں کو محسوس نہیں ہو سکتا، جیسے موت کا درد صرف مرنے والے کو ہی معلوم ہوتا ہے، بچہ جننے والی ماں کا درد صرف اس عورت کو معلوم ہوتا ہے، اسی طرح یہ مہاجرت والی زندگی کا درد صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جو کبھی متاثر ہوئے ہوں،اور جو اس عمل سے گزرے ہوں ۔

پھر ایسے حالات سے گزرنے کے بعد بھی اگر کوئی اتنی محنت کرے کہ وہ قومی سطح پر آ جائے، بلکہ نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر نام کما لے، وہ بھی ایک ریکارڈ کے ساتھ نہیں، بلکہ پانچ سے چھ ریکارڈز کے ساتھ جو دنیا میں صرف اسی کے پاس ہوں۔ یعنی دنیا بھر کی اربوں آبادی میں سے وہ ایک بندہ درخشندہ ستارہ بن کر ابھرے۔ تو یقیناً وہ صرف ملکی سطح پر سراہنے کے قابل نہیں ہوتا بلکہ اکثر ایسے لوگوں کو دوسرے ممالک اور بین الاقوامی سطح پر کافی مراعات اور شہرت کے ساتھ ساتھ انعامات مل جاتے۔

ایک ایسا ہی ستارہ عرفان محسود بھی ہے جس نے مارشل آرٹس میں بین الاقوامی سطح پر گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں یک مشت پانچ ریکارڈ جڑ دئے ہیں۔ عرفان محسود نے کل 7 ریکارڈز کے لئے درخواستیں جمع کرائیں، جن کا خرچہ اس بے روزگار نوجوان نے خود اٹھایا۔ گینیز بک والوں نے کڑی جانچ پڑتال کے بعد عرفان محسود کے پانچ ریکارڈ کامیاب قرار دے کر اپنی کتاب میں شامل کر لئے جب کہ ابھی بھی دو ریکارڈ جانچ پڑتال کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور امید ہے وہ بھی جلد ہی کلئیر ہو کر کتاب میں درج کر لئے جائیں گے۔ جس کے ساتھ عرفان پاکستان کی تاریخ میں وہ واحد کھلاڑی بن جائیں گے جن کے پاس اتنے سارے بین الاقوامی ریکارڈز ہوں۔ وہ پہلے بھی کم ترین عرصے یعنی چالیس دن کے اندر پانچ ریکارڈ بنانے والے پہلے پاکستانی بن چکے ہیں۔

\"irfan\"یقیناً پاکستان میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں، اورخاص طور پر اگر بات قبائیلی علاقے کی جائے تو سہولیات کی کمی کے باعث یہاں وہ ہیرے تراشنے سے رہ گئے ہیں جن کی صلاحیتیں دیکھ کر دنیا حیران رہ جاتی۔ سہولیات کے فقدان اور حکومتی بے توجہی کا شکار یہ علاقہ ایسے سپوتوں سے بھرا پڑا ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ حمزہ شاہد ہو، عارفہ کریم ہو، حمیدہ بی بی ہو، یا کرکٹ کے کھلاڑی ہوں جن کو معمولی اعزازات ملنے پر حکومتی سطح پر اور ملک کے صنعتکاروں اور جاگیرداروں جیسے ملک ریاض اور دوسروں کی طرف سے انعامات کی بارش کر دی جاتی ہے۔ لیکن عرفان محسود کے حصے میں صرف مبارک بادی کے ٹیلی فون آتے ہیں، باقی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جس ملک میں ہر برائی کو محسود قوم سے جوڑا جاتا تھا، اور ہر واقعے کے بعد محسودوں کا نام لے لے کر ان کو بدنام کیا جاتا تھا، آج اسی محسود قوم کا ایک ہونہار اگر ملک کا نام روشن کر رہا ہے تو اس قبیلے کی نیک نامی میں کیوں منافقت سے کام لیا جارہا ہے۔ گلہ تو دوسروں سے بھی ہے لیکن ہمارے اپنے ایم این اے اور سینیٹرز تک اس بارے میں بالکل چپ ہیں۔ شاید ان کو معلوم ہی نہیں کہ ریکارڈ کیا ہوتے ہیں، اور کیسے جان جھوکوں میں ڈال کر دنیا بھر میں کوئی خود کو نمبر ایک بناتا ہے۔ عرفان محسود صرف ایک نام نہیں بلکہ وہ ایک لشکر ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں وہ گومل یونیورسٹی میں ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے۔ ساتھ میں وہ ایک اکیڈمی بھی چلا رہا ہے جس میں چالیس سے پچاس دوسرے نوجوانوں کو بھی مارشل آرٹس میں ٹرین کر رہا ہے، اس اکیڈمی کا خرچہ بھی وہ ان بچوں سے معمولی فیس لے کر پورا کرتا ہے۔ اکیڈمی کے مالک نے اکیڈمی ختم کرنے اور جگہ خالی کرنے کا حکم الگ سے دے رکھا ہے۔ عرفان نے اپنے اعزازت مختلف کیٹیگریز میں بنائے۔ نی چکلز سے لے کر وزن کے ساتھ پش اپس اور کِکس تک ہر شعبے میں ریکارڈ اپنے نام کر لئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں زیادہ تر لوکل بچے ہی عرفان کی صلاحیتوں سے مسفتید ہوتے ہیں لیکن صوبائی حکومت بھی اس سارے معاملے میں چپ سادے بیٹھی ہے۔ صوبائی حکومت نے ڈومیسائل کو بہانہ بنا کر ایسے نوجوان کے لئے اعلان شدہ نوکری دینے سے انکار کر دیا ہے۔ گورنر پختونخوا جو فاٹا کا بھی بڑا ہوتا ہے کی طرف سے بھی ابھی تک اس سارے معاملے پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ پی اے ساؤتھ وزیرستان نے البتہ سینٹر صالح شاہ کی موجودگی میں معمولی امداد پر ٹرخا دیا۔ عرفان محسود کا تعلق اگر قبائلی علاقہ جات سے نہ ہوتا تو وہ پتہ نہیں آج کہاں پہنچتا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اگر کراچی کے چائلڈ فٹبالز کو عشائیے پر بلا سکتا ہے تو عرفان محسود کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے۔

\"irfan-mehsood-2\"ہماری حکومت پاکستان، پاکستانی میڈیا، اور تمام سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ وہ عرفان محسود کے ان اعزازات کے بدلے ان کو وہ مقام دیں جن کا وہ حقدار ہے۔ اس نے کسی کی مدد کے بغیر یہ سارے ریکارڈ بنائے ہیں۔ لہٰذا عرفان محسود ایک قومی ہیرو ہے۔ اس سے ایک قومی ہیرو کی طرح سلوک کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments