کیا آسمانی بجلی کی قیمت بھی بجلی کے بلوں میں شامل ہے؟


موسم خوشگوار تھا، باد صبا کے جھونکے رات کی رانی سے گلے مل کر کھلی ہوئی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوئے اور اودھم مچانے لگے، دل چا ہا کہ ”مختار مسعود“ سے باتیں کی جائیں ”شلف سے“ آواز دوست ”نکالی ہی تھی کہ بجلی چلی گئی۔ ایک گہری تاریکی میرے کمرے میں چھا گئی، کمرے کی وحشت سے ڈر کر باہرنکلنا چاہا تو خیال آیا کہ باہر گہرا سناٹا بھی ہے اور وحشت بھی سو عافیت اسی میں جانی کہ کمرے میں ہی دبک کر بیٹھا رہوں اور اس“ یار بے وفا ”کے آنے کا انتظار کروں جس کے نہ جانے کا پتہ ہے اور نہ آنے کا۔

صاحبو! مغرب سائنسی ترقی کے بلندیوں پر براجمان ہے، طبی، تعلیمی، ذرائع مواصلات سمیت زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کی ترقی قابل تحسین، قابل تعریف اور قابل تقلید ہے، لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم نے مغربی ترقی کو بحیثیت قوم ایک تماشائی کے طرح دیکھا ہے، وہ تماشائی جو وکٹ گرنے پر تالیاں پیٹتا ہے، نعرے لگتا ہے اور میچ ختم ہونے پر اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی شاندار کارکردگی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برستا ہوا گھر کے آنگن میں بچھی شکستہ چارپائی پر اوندھ منہ جا کر لیٹ جاتا ہے۔

مغرب کی اوج کوثر کو چھوتی ترقی کی ڈنکے پوری دنیا میں بج رہے ہیں، ان ممالک میں سال ہاسال گزر جاتے ہیں او ر چند ساعتوں کے لیے بھی لوڈشیدنگ نہیں ہوتی۔ مغرب میں سستی بجلی اور بجلی کی وافر دستیابی کو پاکستانی بڑی حسرت سے دیکھتے ہیں خصوصاً اس وقت جب سورج سوا نیز ا پر آ کر آگ برسائے حبس اتنا ہو کہ لوگ لو کی دعامانگیں، اور ایسے میں بجلی کسی“ یار بے وفا ”کی طرح چھوڑ کر چلی جائے۔ سترسالوں سے سیاسی و عسکری حکومتیں آتی جاتی رہیں، بلاشبہ کچھ شعبہ ہائے زندگی میں گزشتہ حکومتوں نے بہتر کاردگی کا مظاہر ہ کیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بجلی کی پیداوار کو سیاسی و عسکری حکومتوں نے وقت کی ضرورت سے ہم آہنگ نہیں کیا، بجلی کم یاب سے نایا ب ہوتی چلی گئی، بتدریج بجلی کے ریٹ بھی بڑھتے چلے گئے، گمان ہونے لگا کہ شاید آسمانی بجلی کی قیمت بھی واپڈ نے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹ کر دی ہے، ہرماہ موصول ہونے والا بجلی کا بل صارف پر بجلی بن کر گرتا ہے، زائد بلوں سے غریب صارفین بلبلا اٹھتے ہیں اس کے باوجود گھریلو صارفین کے لیے حکومت نے کوئی خوش کن اعلان نہیں کیا۔

ہمارے ہاں نہ صرف گھریلو بجلی مہنگی ہے بلکہ ہماری صنعتیں بھی ہمسائے ملک بھارت سے 25 فی صد مہنگی بجلی پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی مصنوعات بین الاقوامی منڈیوں میں رسائی حاصل نہیں کر پاتیں، حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے پاکستان میں صنعتی شعبے کو 50 فی صد سستی بجلی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دہائیوں سے جاری پیک آور بھی ختم کر دیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی صنعتوں میں زندگی کے آثار نمودار ہوں گے نیز ہماری مصنوعات عالمی منڈیوں میں رسائی حاصل کرسکیں گی، جس سے روپیہ مستحکم ہوگا اور ڈالر کی قدر اور مہنگائی میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔

حال ہی میں ورلڈ بنک نے پاکستان کی توانائی کی ضرورت کے حوالے سے تازہ سروے رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاور سسٹم کا روشن مستقبل شمسی توانائی سے وابستہ ہے روپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کو 2030ء تک اپنی ضرورت کی 30 فی صد بجلی شمسی توانائی سے حاصل کرنا ہوگی، صاحبو! ترقی اور خوشحالی کی منزل پانے کے لیے عالمی ادارے وقتاً فوقتاً رہنما اصول واضح کرتے رہتے ہیں جن کی مدد سے ترقی و خوشحالی کی منزل پائی جا سکتی ہے لیکن کوئی ان اصولوں پر عمل پیرا بھی تو ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).