جنید جمشید کی موت کی سزا مجھے ملی : نوربادشاہ یوسفزئی


\"noor-badshah-yousafzai\"

ہم ایک ایسے سماج بنانے کی جستجو میں ہیں، جس میں شہریوں کو بولنے کی آزادی ہو، لیکن دو دن سے میرے ساتھ پیش انے والے حالات واقعات سے یہ اندازہ لگا کہ ایسے سماج کا بننا محض ایک یونانی افسانہ ہوسکتا ہے، حقیقت میں ہم ہیں دقیانوس۔

جہاز کے افسوسناک واقعے کے بعد میرے فیسبک پر جنید جمشید اور طارق جمیل کے بارے میں ایک پوسٹ چلائی گئی جس سے قطعاً میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ”کاش جنید جمشید کے ساتھ جہاز میں مولانا طارق جمیل بھی ہوتا“۔ میں نے اس پوسٹ سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا تھا، اور سخت ترین الفاظ میں مذمت بھی کی تھی۔ ایک انسان ہونے کے ناطے میں دوسروں کی درد اور دکھ میں برابر کا شریک ہوں، خواہ وہ جنید جمشید کی حادثاتی موت ہو، یا امجد صابری، سبین محمود، خرم ذکی اور بشیر بلور کی پلان کردہ موت۔ میں ان میں سے بھی نہیں ہو، جو دوسروں کی موت پر جشن مناتا ہو۔ یہ نہ تو میری روایات میں ہیں، اور نہ خاندانی تربیت کا حصہ۔

میں اس کو بھی خاطر میں نہیں لاؤنگا، جو دھمکیاں مجھے فون پہ ملی ہے۔

آج سوچ رہاتھا، کہ یہ کیسے دوغلے معاشرے میں رہتے ہیں ہم، جب ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہوا، تو زیادہ تر پاکستانیوں کی یہ دعا اور خواہش تھی، کہ یہ مری کیوں نہیں؟ اسی طرح جب افتاب شیرپاؤ پر حملہ ہوا تو یہی لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ مرا کیوں نہیں؟ چلے اس کو بھی ایک طرف رکھ کر، جب امجد صابری اور خرم ذکی کو شہید کیا گیا تو کیا جشن تھا؟

چند مہینے پہلے ائرپورٹ لاؤنج میں جب جنید جمشید پر توہین رسالت کے الزام میں حملہ ہوا، تو یہی لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ بچ کیسے نکلا؟ کیوں نہیں مارا؟ معاشرتی آداب کو سامنے رکھ کر یہ بات کروں، کہ کسی کی موت پہ، خواہ وہ طبعی ہو، یا حادثاتی، خوشی کا جشن نہیں منانا چاپیے، لیکن پھر ذہن میں آتا ہے، کہ آپ پئے تو گنگا جل، اور اور پیے تو شراب؟

جنید جمشید مولانا طارق جمیل کی طرح ایک اچھا انسان اور کامیاب کرتے کا تاجر تھا۔ نیویارک سے لے کر واشنگٹن، لندن سے لے کر چائنہ تک ان کی تجارت ہوا کرتی تھی، مگر مولانا صاحب کی طرح موصوف میں یہ کمی تھی، کہ وہ جو کام خود کرتے تھے دوسرے لوگوں کو اس کی ترغیب نہیں دیتے تھے، بلکہ عوام کے ساتھ ان کا تعلق فضائل اعمال اور صدقات تک محدود تھا۔ پاکستان کے کونے کونے سے لوگ ان کی اسلامی تعلیمات سننے آتے رہے، اور ان میں سے بیشتر کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہوتا تھا، جو غربت، لاچاری اور تنگ دستی کے دوسرا نام ہے۔

مجھے جہاز میں سوار جتنے بھی اور مسافروں کی موت پر افسوس ہے اتنا جنید جمشید کی موت پر بھی ہے۔ اس دنیا میں بولنے کی سزا صرف موت نہیں ہوسکتی ؛ اب ہمارے پاس سوشل میڈیا ہے۔ ہم اپنی فکر کی ترویج اور اظہار خیال کے لئے اسے استعمال کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ مجھے جنید جمشید کے موت پر افسوس ہے اور رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments