کیا امریکہ طالبان معاہدہ ناکامی کی راہ پر ہے؟


افغانستان میں گزشتہ چند مہینوں سے تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ اور بین الافغان مذاکرات میں بظاہر عدم پیش رفت نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر کئی قسم کے سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

اب تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ ہونے والے امن بات چیت میں افغان حکومت کو بطور فریق شامل نہ کر کے سنگین غلطی کا ارتکاب کیا اور شاید اسی وجہ سے آج افغانستان میں حالات تیزی سے امن کی بجائے بدامنی کی طرف گامزن ہیں۔

رواں سال فروری میں دوحہ میں دستخط شدہ امن معاہدہ میں ویسے تو کئی قسم کی شرائط شامل تھیں لیکن ان میں چند شقیں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ معاہدے کے تحت امریکہ کی طرف سے افغانستان سے انخلا کا ٹائم فریم دیا گیا جبکہ اس کے بدلے میں طالبان کی جانب سے یہ ضمانت دی گئی کہ وہ افغان سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ افغان حکومت اور طالبان قیدیوں کی رہائی، تشدد میں کمی لانا اور بین الافغان مکالمے کا آغاز اس معاہدے کے اہم نکات میں شامل تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قیدیوں کی رہائی کے علاوہ تاحال کسی دوسری شق پر پوری طرح عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

اب تک اس معاہدے کا جو سب سے زیادہ افسوس ناک اور تباہ کن پہلو سامنے آ رہا ہے وہ افغانستان بھر میں تشدد میں خاطر خواہ حد تک اضافہ اور اس کے نتیجے میں عوام میں بڑھتی ہوئی شدید مایوسی ہے۔ طالبان کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ معاہدہ پر دستخط کیے جانے کے ساتھ ہی تشدد میں مرحلہ وار کمی لائی جائے گی لیکن گزشتہ تقریباً نو ماہ میں شورش زدہ ملک میں جنگ و جدل کے واقعات میں کمی کی بجائے مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ اب تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ حالیہ تشدد کی لہر شاید بھرپور جنگ کے ماحول میں بھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ طالبان یہ کئی مرتبہ دو ٹوک الفاظ میں واضح کرچکے ہیں کہ وہ مستقل جنگ بندی نہیں کرا سکتے کیونکہ لڑائی ہی ان کی وہ اصل طاقت ہے جس کی مدد سے وہ اپنے مخالفین سے سخت سے سخت شرائط منوا سکتے ہیں۔ طالبان نے خود کو جیسے ایک جنگی مشین بنایا ہوا ہے اور ان کے بیانات سے بظاہر یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ جیسے وہ تمام تر معاملات کو لڑائی کے ذریعے سے حل کروانا چاہتے ہیں جبکہ سیاسی تدبر اور موقع محل کے مطابق ان سے فائدہ اٹھانا ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔

دوسری طرف دوحہ امن معاہدہ کی رو سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مکالمہ کا آغاز ہوئے دو مہینے پورے ہو گئے ہیں لیکن تاحال بات چیت میں پیش رفت تو دور کی بات فریقین باضابطہ طور پر ایجنڈا پر اتفاق رائے بھی نہیں پیدا کرسکے ہیں۔ طالبان کی طرف سے حالیہ دنوں میں کچھ ایسی شرائط پیش کی گئی ہیں جن سے افغان حکومت بھی چکرا کر رہ گئی ہے۔

ان کا موقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کا ہونے والا دوحہ معاہدہ بین الافغان مذاکرات کا حصہ بنایا جائے کیونکہ بقول ان کے اسی معاہدے کے تحت افغان حکومت سے حالیہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ان کا دوسرا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ اسلامی قانون یا شریعت کے تحت ہونا چاہیے اور اسی کے تناظر میں تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

اگر افغان حکومت یہ مطالبات مانتی ہے تو اس سے نہ صرف طالبان کا پلڑا بھاری ہو جائے گا بلکہ ان کی امریکہ اور طالبان حکومت کے خلاف گزشتہ 19 سال سے افغانستان میں جاری مسلح مزاحمت، جنہیں وہ ’جہاد‘ کا نام دیتے ہیں، کو بھی قانونی حیثیت مل جائے گی۔

لیکن اب یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ۔ طالبان معاہدہ کی وجہ سے نہ تو افغانستان میں تشدد میں کمی آ سکی اور نہ ہی اس کے باعث تاحال باضابطہ طور پر بین الافغان مکالمہ کا آغاز ہوسکا، تو ایسی صورتحال میں اس معاہدے کو کس حد تک کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے؟

دوحہ امن معاہدے کی ایک اور بڑی تباہ کن کمزوری یہ قرار دی جاتی ہے کہ اس میں گراؤنڈ پر موجود اہم اور اصل فریق یعنی افغان حکومت کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اس عمل سے باہر رکھا گیا جس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ جیسے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ طالبان تو پہلے ہی افغان حکومت کو غیر ملکیوں کی ’کٹھ پتلی‘ قرار دیتی رہی ہے۔

امریکہ کی طرف سے امن عمل کے ابتدا ہی سے جھکاؤ طالبان کی طرف رہا ہے جبکہ ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے رفقا کو ثانوی درجہ دیا جاتا رہا جس سے ان کی حیثیت مزید کمزور ہو گئی ہے اور آج افغانستان کے نو منتخب صدر ایک ایسے پوزیشن پر کھڑے ہیں جہاں پلڑے میں ان کا وزن کم دکھائی دے رہا ہے۔

ادھر امریکہ بظاہر افغانستان میں آج بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے جو اس کی سرد جنگ کے دوران رہی تھی۔ طالبان سے امن معاہدے کے نتیجے میں وہ بتدریج افواج کے انخلا پر عمل پیرا ہے جبکہ اس دوران ان کی فورسز ہر قسم کی دہشت گرد کارروائیوں سے محفوظ ہیں لیکن دوسری طرف لگ رہا ہے کہ وہ جنگ کا میدان پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر سے افغان عوام کے لیے چھوڑ رہا ہے۔

نوے کے عشرے میں بھی سابق سویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ نے جلدی بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کو اس وقت کے مجاہدین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا جس کے بعد شورش زدہ ملک شدید عدم استحکام کا شکار ہوا اور آج تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکا ہے۔

موجودہ حالات میں بظاہر لگ رہا ہے کہ امریکہ پھر سے وہی کھیل دہرانے جا رہا ہے۔ خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے بیشتر دانشوروں کا خیال ہے کہ امریکہ کسی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ اس خطے میں امن آئے کیونکہ اس سے ان کے مفادات کو خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ افغانستان کے پڑوس میں بیشتر وہ ممالک واقع ہیں جو امریکہ کے سخت حریف سمجھے جاتے ہیں جس میں ایران، روس اور چین قابل ذکر ہیں لہذا یہاں بدامنی اس کے مفاد میں نظر آتی ہے۔

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کی شکست اور جو بائیڈن کے آنے سے امریکہ کی افغان پالیسی میں بظاہر کوئی بڑی تبدیلی آنے کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ دونوں رہنما امریکی افواج کے انخلا کے حامی ہیں۔ جو بائیڈن تقریباً آٹھ سال تک امریکہ کے نائب صدر رہے اور اس دوران وہ کئی مرتبہ افغانستان کے دورے کرچکے ہیں جبکہ انہیں افغان سیاست کی سمجھ بوجھ بھی ہے۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے انخلا میں جلدبازی کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن نئے امریکی صدر کے بارے میں کہا جا رہا ہے شاید وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر تمام فیصلے کریں گے۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ دوحہ میں جاری امن کا عمل مزید سست روی کا شکار ہو سکتا ہے۔

افغانستان کی موجودہ حالات کا اگر نیک نیتی سے جائزہ لیا جائے تو مستقبل کا منظر پھر سے جنگ زدہ دکھائی دیتا ہے لہذا افغان حکومت، طالبان اور خطے کے دیگر ممالک کو ان تمام تر حقیقتوں کو مدنظر کر امن کے لیے غیر معمولی اور حقیقی کوششیں کرنا ہوگی ورنہ بدامنی کی زد میں تمام خطہ آ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).