بی اماں: تحریک خلافت کی سرگرم کارکن اور علی برادران کی والدہ آبادی بیگم کون تھیں؟


جب وہ 27 سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں تو اُن کے کاندھوں پر چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کی ذمے داری تھی۔ چونکہ جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھیں اس لیے خاندان والوں نے عقدِ ثانی کا مشورہ دیا مگر انھوں نے سختی سے مسترد کر دیا۔

اپنا زیور بیچ بیچ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور قسمت دیکھیے کہ بچے بھی کون، شوکت علی اور محمد علی، جو آگے چل کر ’علی برادران‘ کے نام سے معروف ہوئے۔

اُن کا اصل نام آبادی بیگم اور تعلق امروہے سے تھا۔ آبادی بیگم کے والد ملازمت کے سلسلے میں امروہے سے رامپور منتقل ہو گئے تھے۔ رامپور میں ہی آبادی بیگم کی شادی عبدالعلی خان سے ہوئی۔

شادی سے پہلے وہ پڑھنا لکھنا بالکل نہیں جانتی تھیں لیکن شوہر پڑھے لکھے شخص تھے، ریاست رامپور میں ملازم تھے اور اُردو، فارسی، عربی اور انگریزی کی کتابوں کے مطالعے کے رسیا تھے۔ انہی کی صحبت میں آبادی کو پڑھنے لکھنے کا شوق ہوا اور اتنی اُردو پڑھ لی کہ شوہر کی زندگی میں ہی ٹوٹی پھوٹی اُردو لکھنے اور پڑھنے لگیں۔

شوہر کی وفات کے بعد انھوں نے باقاعدہ اُردو پڑھی اور پھر جب جلسوں میں تقریر کرنے کا موقع ملا تو کوئی یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ خاتون 18، 20 سال کی عمر تک اَن پڑھ تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘انگریزوں کو میرا جسم نہیں ملنا چاہیے’

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان

حسن ناصر: قلعہ لاہور کا کمیونسٹ قیدی جس کی لاش کبھی نہ ملی

ان کے بیٹے مولانا محمد علی کہا کرتے تھے کہ میری والدہ عملی طور پر بالکل ان پڑھ تھیں مگر مجھے زندگی میں جن لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اُن میں سے کوئی ایک شخص ایسا نہیں ملا جو ان سے زیادہ صاحبِ فہم ہو۔ محمد علی یہ بھی کہتے تھے کہ وہ جو بھی کچھ ہیں اور جو کچھ اُن کے پاس ہے وہ خداوند کریم نے انھیں ان کی والدہ کے ذریعے سے پہنچایا تھا۔

آبادی بیگم نے اپنے بیٹوں شوکت علی اور محمد علی کو پہلے علی گڑھ پڑھنے کے لیے بھیجا اور اس کے بعد انگلستان، جہاں ان دونوں بھائیوں نے اکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ دونوں بھائی وطن واپس لوٹے تو انھوں نے پہلے ریاستی ملازمتیں کیں مگر جلد ہی انھوں نے ملکی سیاست میں بھرپور حصہ لینا شروع کر دیا۔

دونوں بھائی پہلے صحافت اور پھر عملی سیاست کے میدان میں جھنڈے گاڑنے لگے۔ سنہ 1914 میں اُن بھائیوں کو انگریزوں کے خلاف اداریہ لکھنے پر گرفتار کر لیا گیا، اُس وقت آبادی بیگم کی عمر 62 برس تھی۔ آبادی بیگم نے اپنے بیٹوں کی ہمت بندھانے کے لیے خود بھی عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ اب لوگ انھیں ’بی اماں‘ کے نام سے یاد کرنے لگے تھے۔

سنہ 1919 میں خلافت تحریک کا آغاز ہوا۔ شوکت علی اور محمد علی عوام کو انگریزوں کے خلاف جدوجہد پر ابھارنے کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے، اُن پر بغاوت کا الزام تھا اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے انھیں کراچی جیل میں نظر بند کر دیا گیا۔

اسی زمانے میں ایک صاحب دل اقبال سہارنپوری نے سولہ بند پر مشتمل ’صدائے خاتون‘ کے نام سے ایک نظم لکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نظم کا ٹیپ کا مصرع ’بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پر دے دو‘ ملک بھر میں مقبول ہو گیا۔

نظم کچھ اس طرح ہے:

بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ساتھ تیرے ہے شوکت علی بھی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ہو تمھی میرے گھر کا اجالا، تھا اسی واسطے تم کو پالا

کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔۔۔

بی اماں نے اپنے بیٹوں کی قید کا زمانہ بڑے صبر اور حوصلے سے گزارا، وہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں گئیں اور اپنی تقریروں سے مسلمانوں کے جذبہ حریت کو گرماتی رہیں۔

شوکت علی اور محمد علی کو قید کی سزا ہوئی تو انھی اقبال سہارنپوری نے ایک اور نظم لکھی جس کا عنوان تھا ’صدائے مظلوم‘ اور اس کا پہلا بند تھا۔

’کہہ رہے ہیں کراچی کے قیدی

ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو

آبرو حق کے رستے میں دے دی

ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو‘

یہ ایک طویل نظم تھی جو اٹھارہ بند پر مشتمل تھی۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ دونوں نظمیں خاص طور پر ’صدائے خاتون‘ اس زمانے میں اتنی مقبول تھیں کہ دور افتادہ دیہاتوں کی ناخواندہ عورتوں تک، جنھیں سیاسی تو کیا سماجی شعور تک نہ تھا انھیں لکھ لکھ کر یا حفظ کر کے محفوظ کرنے کی کوشش کرتی تھیں اور ان کے مرد شہروں سے اپنے خطوط میں یہ نظمیں لکھ کر یا لکھوا کر انھیں بھیجا کرتے تھے۔

بی اماں جلسوں میں شرکت کرتیں، تقریریں کرتیں، ریل گاڑی کے ذریعے طویل سفر کرتیں اور اکثر بیل گاڑی کے ذریعے ریلوے سٹیشن سے جلسہ گاہ تک پہنچتیں۔

ایک دفعہ یہ خبر مشہور ہو گئی کہ مولانا محمد علی، بعض دوسرے افراد کی طرح، معافی مانگ کر جیل سے رہا ہو جائیں گے۔ بی اماں نے یہ خبر سُنی تو غضبناک ہو گئیں اور بولیں ’نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو گا، محمد علی اسلام کا سپوت ہے، وہ انگریزوں سے معافی مانگنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر اس نے یہ حرکت کی تو میرے بوڑھے ہاتھوں میں ابھی اتنی طاقت ہے کہ اس کا گلا گھونٹ دوں، ایسی زندگی جس سے اسلام پر حرف آئے لعنت ہے۔‘

یہ زمانہ ہندو مسلم اتحاد کا زمانہ تھا۔ سنہ 1923 میں جامعہ ملیہ دہلی کا جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا جس کی صدارت حکیم اجمل خان نے کی اور بنگال کے سائنسدان سر پی سی رائے نے اسناد تقسیم کیں۔

سہ پہر کو طلبا محمد علی ہال میں جمع ہوئے، بی اماں نے بغیر برقعہ کے خطاب کیا اور کہا کہ ’میں نے اپنا برقعہ اس لیے اُتارا ہے کہ اس ملک میں اب کسی کی آبرو باقی نہیں رہی، میں نے سنہ 1857 میں اپنے جھنڈے کو لال قلعے سے اُترتے دیکھا، اب میری تمنا ہے کہ اب میں انگریزوں کے جھنڈے کو لال قلعے سے اترتے دیکھوں۔‘

بی اماں کے اس خطاب سے تمام طلبا میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔

حالات تبدیل ہوئے، ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے اور کانگریس میں پھوٹ پڑ گئی تو بی اماں کو بڑا صدمہ ہوا۔ بی اماں کے مداحوں میں گاندھی جی اورمسز اینی بیسنٹ بھی شامل تھیں۔ ان دونوں نے بی اماں کو خطوط لکھے کہ اس موقع پر آپ ہندو مسلم اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

بی اماں کے کہنے پر گاندھی جی ان سے ملنے دہلی بھی آئے۔ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کی خاطر 21 دن کے برت کا اعلان بھی کیا۔

11 مارچ 1924 کو بی اماں کو اپنی پوتی آمنہ کی موت کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ اس کے چند ماہ بعد 12 اور 13 نومبر 1924 کی درمیانی شب بی اماں بھی وفات پا گئیں۔ انھیں دہلی میں درگاہ شاہ ابوالخیر میں سپرد خاک کیا گیا۔

بی اماں کی وفات پر ہندوستان بھر میں تعزیتی اجلاس ہوئے جس میں کیا ہندو اور کیا مسلمان سبھی نے بی اماں کی ہمت، جوش اور ولولے کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان خراج تحسین پیش کرنے والوں میں بڑے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے عام اور گمنام لوگ بھی شامل تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp