پہلی مگھر (ماگھ) کی جھڑی اور بے گھری


رات کا ڈیڑھ بجا ہے۔ نومبر کی 15 اور مگھر کی شاید پہلی تاریخ ہے۔ کھڑکی کے شیشے پر سردیوں کی پہلی جھڑی کی بوندوں کی دستک سے آنکھ کھل گئی ہے۔ طویل خشک موسم کے بعد بوندوں کی ٹپ ٹپ کی آواز اچھی لگ رہی ہے۔ اس کی وجہ آرام دہ بستر، سر پر چھت اور بھرا ہوا پیٹ بھی ہے۔

بے گھری اور بھوک کسی بھی موسم میں اور کہیں بھی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ لیکن شہروں میں سردیاں بے گھر اور بے سہارا افراد کے لیے مشکل ترین وقت ہوتی ہیں۔ بارش اس تکلیف میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہے۔

شہروں میں گھروں کی طرز تعمیر، کمیونٹی ممبرز کا باہم محدود تعارف اور بسا اوقات مکمل ناواقف ہونا، جرائم کی زیادہ شرح، اشیا اور خدمات کی قیمت وغیرہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے شہری بے گھری اور غربت زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں۔

حجم میں نسبتاً چھوٹی، زرعی اور دیہی کمیونٹیز میں یہ مسائل کم ہیں اور ہمدلی (empathy) کا عنصر بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہاں عبادت گاہیں بھی کھلی مل جاتی ہیں کہ خدا کے گھر میں خدا کے بندے سر چھپا لیں، شہروں میں سیکیورٹی کے پیش نظر ان پر بھی تالے پڑ گئے ہیں۔

سردی اور بارش میں لوگ گھروں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ گھر جو گرم ہوتے ہیں اور جہاں خوراک دستیاب ہوتی ہے۔ گلی میں صرف آوارہ کتے اور بے گھر افراد رہ جاتے ہیں۔ گلی کے یہ دونوں باسی اکثر بھوکے ہوتے ہیں۔ کتے کچرے کے ڈھیر سے کچھ کھا کر دکانوں کے تھڑوں کے نیچے لیٹ جاتے ہیں۔

بے گھر انسانوں کو مگر چوکیدار دکانوں کے تھڑوں اور مارکیٹوں کے برآمدوں میں سونے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان میں سے چند ”خوش نصیب“ (آہ، کیا خوشی نصیبی ہے! ) ریاست کی پناہ گاہوں میں جگہ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بڑی تعداد کتوں کے ساتھ گلی میں رہنے پر مجبور ہوتی ہے۔

ایک ہی وقت مختلف مالی حیثیت کی وجہ سے دو قسم کے افراد کے لیے یکسر مختلف کیفیات کا باعث بن جاتا ہے۔ صاحب حیثیت لوگ شام کو خوشی سے گھر کے آرام کی طرف جاتے ہیں جبکہ ہر شام مغرب کو جاتا سورج بے حیثیت اور بے گھر افراد کے لیے ایک اور مشکل رات کا پیام بر ہوتا ہے۔

بے گھر افراد اور سرکار کی پناہ گاہوں میں دستیاب گنجائش میں وہی تناسب ہے جو ریاست میں ظلم کے مقابلے میں دستیاب انصاف کی جنس میں ہے۔ ایک انار کے طلب گار سینکڑوں میں نہیں، ان گنت ہیں۔

موسم کی شدت، بھوک اور بیماری ہی وہ وجوہات ہیں کہ ریاست مدینہ ہو یا ترقی یافتہ مغربی جمہوریتیں، بے گھر اور غریب افراد کی بڑی تعداد سردیوں میں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔

بے گھری اور تہی دامنی اسی موسم کو ان درماندوں کے لیے موت کا موسم بنا دیتی ہیں جو حیثیت والوں کے لیے گلابی جاڑا کہلاتا اور لحافوں میں گھس کر، آتش دانوں کے سامنے بیٹھ کر خشک میوے کٹکٹانے اور سماواروں سے خوش کن مہک والی بھاپ اڑاتی چائے اور قہوے کے پیالے بھر بھر کر چسکیاں لینے کا وقت سمجھا جاتا ہے۔

سب ہونے کی باتیں اور نہ ہونے کا آزار ہے۔ haves اور haves not کا قصہ ہے۔ دو ہی طبقے ہیں، ایک کے پاس ہے اور ایک کے ہاتھ خالی ہیں۔

یہ تفریق کب ختم ہو گی؟ ہو گی بھی یا نہیں؟ کون کرے گا؟ کون اس کے خاتمے کی آڑ میں اپنی حیثیت مزید مستحکم کرے گا؟ ان سوالات کے جواب میرے پاس تو نہیں۔

سرمائے اور استحصال کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سرمائے والے کو کون اس سے روکے گا؟ قانون یا اخلاقی تعلیمات؟ مجھے دونوں اس میں ناکام نظر آتے ہیں۔

بعض اوقات تو لگتا ہے یہ دونوں کا مقصد ہی نہیں کہ سرمائے کے ہاتھوں استحصال کو روکیں۔ بلکہ قانون اور اخلاقیات وہ لولی پاپ ہیں جو haves not کو پھٹ پڑنے سے روکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پریشر ککر کے اوپر رکھا ہوا وہ آلہ ہیں جس سے وقتاً فوقتاً فالتو بھاپ نکال دی جاتی ہے تاکہ ککنگ جاری رہے اور برتن پھٹے نہیں۔

ممکن بس یہ ہے کہ اپنے ہاتھ پیر مارو اور اپنے زور پر خود کو اس سے محفوظ بناؤ۔ دوسرا ممکن کام یہ ہے اپنی بساط بھر سڑک پر بسنے والے اپنے ہم جنسوں، آدم اور حوا کے بچوں کی مدد کر دو۔

گھر میں موجود فالتو لحاف/کمبل اور گرم کپڑے سردیوں کے شروع میں بے گھر افراد کو دے دیں، اور ہر روز کچھ کھانا اپنے قریب کسی بے گھر تک پہنچا دیں۔ ان haves not کے لیے گرمی اور حدت ہی اس موسم میں جنت کا استعارہ ہیں، بھرے پیٹ والوں کے لیے بھلے حدت کا تصور جہنم سے وابستہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).