باچاخان کے بارے میں روایتی میانہ روی


آصف محمود صاحب ایک صحافی ہے۔ انہوں نے روزنامہ 92 میں ”باچاخان۔ آپ بیتی ک روشنی میں“ کے نام سے ایک کالم لکھا۔ آصف صاحب نے باچاخان کے آپ بیتی پہ میانہ روی سے تجزیہ کرنے کا کہہ کر روایتی ریاستی تعصب کا چشمہ لگا کے تبصرہ کیا ہے۔ اس لیے حقائق کو غلط پیش کیا ہے۔ مندرجہ ذیل نکات کو گول مول کر کے پیش کیا ہے جن کی درستی کرنا چاہتا ہوں۔

1۔ باچاخان ایک قوم پرست رہنما تھے لیکن نہ ان کی قوم پرستی تعصب پر مبنی تھی اور نہ ہی وہ صرف ایک قوم تک محدود تھے۔ انہوں نے آپ بیتی میں یہ تو پڑھا کہ وہ صرف ایک قوم کے لئے تعلیمی کاوشیں کر رہے تھے لیکن انہوں نے 1932 کے بعد باچاخان کے صوبہ بدر ہونے کے بعد ہندوستان کے باقی صوبوں میں ان کو مسلمانوں کے لئے کام کرتے نہیں دیکھا۔

2۔ کتاب کے آغاز سے جو تاثر ملتا ہے وہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لے کے پیش کیا ہے۔ باچاخان علماء کے خلاف نہ تھے بلکہ انہوں نے علماء کے ساتھ مل کے آزادی ہندوستان کے لئے کام کر رہے تھے۔ ریشمی رومال تحریک کا حصہ رہے اور مجاہدین کے لئے آزاد قبائل کے علاقے میں کیمپ ڈھونڈنے مولانا مدنی اور حاجی صاحب ترنگزئی کے حکم پہ خود دورہ کیا۔

دوسرے آصف محمود صاحب ایک مختلف کلچر اور علاقے سے ہونے کے باعث ملا اور ملانٹے کے الفاظ کو پشتون کلچر اور تاریخی تناظر میں سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ باچاخان باقاعدہ ان لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے صرف ناظرہ قرآن اور چند بنیادی دینی کتب پڑھے تھے اور اپنے فائدے کے لئے خاص قسم کے بدعات معاشرے میں قائم کردیتے تھے۔ جن کا واقعہ بیان کر کے واضح بھی کیا ہے۔ اس لیے وہ دین کے اصل روح کو بیدار کرنے کے لئے ان کے خلاف بات کرتے رہے۔

3۔ باچاخان کا پنجاب کی طرف رویہ کبھی متعصب نہیں تھا اور نہ ہی اسی بنیاد پہ وہ یہ بات کرتے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ لوگ یہاں کے رسم و رواج سے بے خبر تھے اس لیے کبھی مسائل جنم لیتے تھے۔ باقی تو انہوں نے جو پشتون افسرز کے ظلم کی بات کی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن افسوس ان کو کہیں نظر نہ آیا۔ اصل میں باچاخان نے بیوروکریسی کے مائنڈ سیٹ پہ تنقید کی ہے لیکن نہ جانے ان کو کہاں سے یہ تنقید لسانی لگی۔

4۔ باچاخان نے مسلم لیگ والوں کو بارہا اپروچ کیا لیکن وہ انگریز کے خلاف کبھی بھی پشتونوں کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھے۔ اور کانگریس نے ہر طرز سے ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد شملہ میں چالیس کی دہائی میں باچاخان نے پھر بھی کہا لیکن تب بھی انہوں نے خاموشی اختیار کی اور ساتھ نبھانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔

5۔ کتاب کے آخر میں تقریر کا جو حوالہ انہوں نے دیا ہے وہ سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے حالات اور ریاست کے جاری مظالم کے نتیجے میں کہا تھا کہ یہ لوگوں کو اشتعال کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ آپ اگر باچاخان کی آئین ساز اسمبلی میں پہلی تقریر پڑھ لیتے تو شاید آپ کو ان کا مقدمہ سمجھنے میں آسانی ہوتی۔

5۔ متحدہ ہندوستان میں رہنا پسند تھا اور ہندوستان میں نہیں۔ جناب خود ارادیت کے لئے آپ کسی کو مجبور نہیں کر سکتے کہ کب وہ کیا کہے۔ اگر آپ جذباتی بنیاد پہ یہ بات کہیں تو ٹھیک اگر ریشنل اور حقائق کے بنیاد پہ تجزیہ کریں تو آپ کو وجہ نظر آ جائے گی۔ رہی بات خود ارادیت کے فیصلہ کا وہ صرف باچاخان کا نہیں بلکہ بنوں جرگہ نے تمام پشتون لیڈرز بشمول ایپی فقیر حاجی میرزلی خان نے کیا تھا۔

متحدہ ہندوستان میں ان کی حکومت کو کسی نے کچھ نہ کہا اور پاکستان نے سب سے پہلے الیکٹیڈ گورنمنٹ کو گرا دیا۔ پھر خدائی خدمت گاروں کے دفتر کو گرا دیا اور پھر سینکڑوں کو قتل کر دیا۔

کالم کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ کتاب کے ختم کرنے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ باچاخان کی راہ میں اگر ان کی افتاد طبع حائل نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ میں ان کا کالم پڑھ کے سوچ رہا ہوں کہ اگر آصف محمود صاحب جیسے لکھاریوں کے باچاخان پہ تبصرے کرتے وقت ان کے ذہن میں باچاخان کے بارے میں قائم روایتی متعصبانہ سوچ حائل نہ رہتی تو کتنا اچھا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).