ایک مزار اور دو منظر


میں آج سے تین دن پہلے اپنے شہر میں موجود تھا۔ میرے ایک دوست مجھے زبردستی وہاں سے کافی دور اس شہر میں گھسیٹ لائے۔ یہ دو \"husnainدن اور ایک رات پر مشتمل صبر آزما سفر تھا۔ اس امید پر چلا آیا کہ یہاں مرشدوں کا دیدار بھی ہو جائے گا اور کچھ دوستوں سے بھی مل لوں گا۔ چوں کہ میں نے ٹھانی ہوئی تھی کہ حضرت جی کے نیاز حاصل کرنے ہیں تو پہنچتے ہی سب سے پہلے یہاں چلا آیا۔ مجھے لانے والے گاڑی میں بیٹھے ہیں اور میں اپنے نصیبوں پر جھومتا ہوا جلدی جلدی مرشد کی زیارت کو چلا جا رہا ہوں۔ اس کہانی میں مجھے کردار \”جیم\” کہا گیا ہے۔ میں جیم ہوں اور الف کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ الف وہ ہیں جو باہر گاڑی میں بیٹھے ہیں۔

میرا سلسلہ کچھ ہٹ کر ہے۔ یہاں روایتی پیری مریدی والے معاملات نہیں ہوتے۔ حضرت صاحب جدید علم رکھتے ہیں اور دلائل کے ساتھ گفت گو کرتے ہیں۔ کوئی غیر شرعی یا عقل کی حدود سے دور پائے جانے والے معاملات ہمارے سلسلے میں نہیں پائے جاتے۔ نذر نیاز کے نام پر بھی کوئی دینا دلانا نہیں ہوتا۔ اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو کوئی پھول وغیرہ لے جائیے۔ حیثیت نہیں ہے اور لے گئے تو اس پر بھی ناراض ہوں گے کہ کہ بھئی اپنی ذات پر کیوں ناحق بوجھ ڈالتے ہو۔ اس پیری مریدی میں کوشش صرف یہی ہوتی ہے کہ دوسروں کو اچھا انسان بنایا جائے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ چوں کہ سادہ اور دل کو چھو لینے والی باتیں عام طریقے سے بتائی جاتی ہیں اس لیے ان کے مریدوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔

حضرت بہت بااخلاق طریقے سے ملے، اپنے قریب بٹھایا۔ مختلف امور پر بات چیت کی۔ حاضر احباب کے ساتھ میرے حق میں دعا بھی فرمائی۔ اس دوران چند بزرگوں کی کرامات کا بھی ذکر ہوا، کہنے لگے؛

ایک بزرگ عبادت میں مصروف تھے کہ سامنے سے ایک کتا سامنے سے گزر گیا۔ اتفاقاَ بزرگ کی نظر اس تک چلی گئی، ان بزرگ کی اس ایک نگاہ کی یہ کرامت دیکھیے کہ وہ کتا جہاں جاتا تھا دوسرے کتے اس کے پیچھے پیچھے ہو لیتے تھے اور جہاں بیٹھتا سارے کتے حلقہ بنا کر اس کے اردگرد بیٹھ جاتے۔ پھر ہنس کر فرمایا کہ وہ کتوں کا سردار بن گیا، بزرگوں کا عجیب اثر ہوتا ہے اور عجیب برکت ہوتی ہے۔

پھر کہنے لگے کہ ایک اور بزرگ کے پاس ایک کتا روزانہ کچھ کھانے کی لالچ میں آ جاتا۔ اس کا نام انہوں نے موتی رکھا تھا۔ ایک بار وہ کتا کئی دن نہ آیا۔ بزرگ رقیق القلب ہوتے ہی ہیں اس کتے سے بھی تعلق ہو گیا تھا۔ دریافت فرمایا، ارے بھئی کئی دن سے موتی نہیں آیا۔ انہوں نے تو ویسے ہی گفت گو میں دریافت کیا لیکن مرید دل و جان سے اس کی تلاش میں لگ گئے، دن رات ایک کر دیے، آخر دیکھا کہ ایک کتیا کے پیچھے پیچھے پھر رہا ہے۔ ان لوگوں نے آ کر یہی کہہ دیا کہ وہ تو ایک کتیا کے پیچھے پھر رہا ہے۔ اب جس دم وہ کتا آیا تو ان بزرگ نے اس سے کہا کہ کیوں میاں تم بڑے نالائق ہو ہمارے پاس آتے جاتے ہو اور پھر بھی کتیا کے پیچھے پھرتے ہو؟ یہ سن کر وہ کتا فوراَ چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا گیا کہ ایک نالی میں سر ہے اور مرا پڑا ہے۔

اس بات چیت کے بعد دیگر لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ لوگ آتے جاتے رہے، اپنی اپنی باتیں کرتے رہے۔ حضرت صاحب جواب دیتے جاتے تھے، ساتھ ساتھ مجھ سے بھی باتیں کرتے رہتے۔ جب میں نے رخصت کی اجازت چاہی تو تبرک کے طور پر لنگر کے کچھ چاول ساتھ کر دئیے۔ بہ صد احترام یہ نیاز لی اور ایک عجیب سا روحانی اطمینان دل میں محسوس کرتے ہوئے میں ان کے ہاں سے رخصت ہوا۔ اب الف کی طرف جانے کا ارادہ کیا جو گاڑی میں بیٹھے میرا، یعنی جیم کا انتظار کرتے تھے۔

دوسرا منظر (پہلے منظر کے دوران جب جیم نے یہ سب کرامات سنیں تو اس وقت الف کیا کر رہے تھے)

میں اس کہانی کا کردار الف ہوں۔ میں یہاں جیم کے ساتھ آیا تھا۔ باہر مزار کے احاطے میں ہوں اور گاڑی میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا ہوں۔ وہ اندر کسی کام سے گئے ہیں۔ ماحول میں عجیب سی اداسی ہے، وقت گزر ہی نہیں رہا، ایک جگہ پر رکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں چند بچے بے مقصد گھوم رہے ہیں۔ شلوار قمیص، نیلے اور سبز رنگ کی جرسیاں اور سر پر جالی دار گول سفید ٹوپیاں پہنے ہیں۔ سرائیکی بولتے ہوئےایک دوسرے کے بارے میں ایسی گھناؤنی خواہشات کا اظہار ہو رہا ہے جو ان کے بڑے شاید آپس میں بے تکلف بات چیت کے دوران روا رکھتے ہوں۔ ایک بچہ سب سے طاقتور ہے۔ کسی کو گالی دیتا ہے، کسی سے الجھ پڑتا ہے۔ سب اس سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔

ذرا دور وہ ایک اور جرسی والا بچہ معصومیت سے ان کو دیکھ رہا ہے۔ ان سے یہ سب کچھ سیکھ رہا ہے۔ اتنا چھوٹا بھی نہیں ہے اور کوئی خاص پیارا بھی نہیں، لیکن ایسا معصوم دکھتا ہے جیسے ابھی پیدا ہوا ہو۔

دو اور بچے کسی کی موٹر سائیکل گھسیٹ کر لے جا رہے ہیں، میرے سامنے سے گزرتے ہیں، پیچھے سے دھکیلنے والا دوسرے کو دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی گالی دے کر مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب اسے سٹارٹ بھی کر لے۔ یہ ایک اور بچہ سامنے آ گیا، زمین سے کنکر اٹھا کر دوسرے بچے کو مار رہا ہے۔ دوسرا ادھر سے اس کو مارنے کے لیے کچھ اٹھاتا ہے۔ ایک اور بچہ شال کی بکل مارے کھڑا ہے، حسرت سے ان دو کو موٹرسائیکل چلاتے دیکھ رہا ہے جو ابھی دھکیل کر لے گئے تھے۔ ایک اور ننھا سا طالب علم کمانڈو جیکٹ پہنے، کندھے پر چوخانہ رومال رکھے، زمین پر اکڑوں بیٹھا ہے اور ایک لکڑی کو زمین پر بے مقصد مار رہا ہے۔ ایک بوڑھی خاتون بہت چھپا کر سگریٹ جلاتی ہیں، شال میں چھپا کر بیٹھی ہیں، جیسے ہی بچے ادھر ادھر ہوتے ہیں ایک کش لے کر پھر ہاتھ شال کے اندر، ڈرنے کا انداز ایسا ہے کہ اگر کسی آس پاس موجود بچے یا بڑے نے دیکھ لیا تو غضب کی گڑبڑ ہو جائے گی۔ کوئی بچہ دس برس سے زیادہ کا نظر نہیں آتا۔ چھ سات برس تک کی عمر والے بچوں کے چہرے پر شاید کوئی معصومیت نظر آ بھی جائے ورنہ جسے دیکھیے مستقل محرومی، خوف اور کسی ان دیکھی اذیت کا احساس ان کے پورے وجود سے ٹپکا پڑ رہاہے۔

اگر میں ایڑھی پر کھڑا ہو کر گول گھوم جاؤں تو ہر طرف ہی قبریں دکھائی دیں گی۔ داہنے ہاتھ ایک مزار ہے۔ اس کے سامنے ایک بکرا سردی سے بے حال لیٹا ہوا ہے، شاید بیمار ہے، لیکن ہے وہ آخری دموں پر۔ انتہائی لاغر بھی ہے۔ ایک بچہ اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس نے پتلون قمیص پہنی ہوئی ہے۔ وہ بہرحال ان دوسرے بچوں کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ بڑبڑاتا ہے، \”بکھا مارن ڈئے نیں\” (بھوکا مار رہے ہیں اسے) اور یہ کہہ کر بکرے سے منہ پھیرے دوسری جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ شاید سردی اسے بھی زوروں کی لگ رہی ہے۔ دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ہیں، سر پر کنٹوپ ہے۔

مزار سنگ مرمر کا ہے۔ چمکتا ہوا کلس، محنت سے بنایا خوب صورت گنبد۔ گنبد کے نیچے سنہری ٹائلیں بہت جچ رہی ہیں۔ اس کے نیچے کچھ نیلی اور سفید ٹائلوں کا نمونہ ہے۔ مرکزی دروازے کے اوپر مقدس کلام لکھا ہے۔ وہ دروازہ اور کھڑکیاں اس سبز رنگ کی ہیں جو عبادت گاہوں میں ہمارے ہاں عموما پایا جاتا ہے۔

ٹوٹی ہوئی سائیکل پر ایک کالی اور لمبی ڈاڑھی والا غریب سا نوجوان میلی سی شلوار قمیص پہنے، سر پر کروشیے کی ٹوپی رکھے موبائل پر باتیں کرتا ہوا انہی بچوں کی طرف جا رہا ہے جو ابھی سامنے سے گزر کر دوسری طرف جا رہے تھے۔

آرائشی محرابوں کی بھرمار ہے۔ مزار سے ملحقہ ایک اور عمارت ہے، شاید عبادت گاہ بھی ہے اور وہیں بچوں کو پڑھاتے بھی ہیں۔ ادھر سے ایک اور بچہ ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا لیے نکلا ہے۔ اس نے بھی وہی نیلے رنگ کی جرسی پہنی ہوئی ہے جو شاید وردی ہے۔ ڈنڈا گھماتا ہوا باقی بچوں کی طرف جا رہا ہے۔ چار چوفیرے ٹپکتی بے مقصدیت کی فراخی سے میں اپنے تئیں نڈھال ہوں۔ کوئی بھی کام کرنے کی جلدی کسی کو نہیں ہے، یا شاید کوئی کام ہی نہیں ہے۔

میں سوچتا ہوں، یہ دنیا کا کون سا حصہ ہے؟

یہ لوگ کون ہیں؟ کیا یہاں تعلیم بھی دی جا سکتی ہے؟ کیسی تعلیم دے سکتے ہیں؟ ہر ایک بچے کی شکل پر نصاب لکھا نظر آتا ہے۔ مولا کچھ ایسا کر دے کہ تیرے نام پر چلتے یہ کاروبار ذرا سدھر جائیں۔ بند ہونے کی تو امید بھی نہیں، بس فلاح کی ہی کوئی صورت نکال دے۔ میں، اس کہانی کا کردار الف گاڑی میں بیٹھے یہ سب لکھ رہا ہوں اور دعا مانگتا ہوں۔

تیسرا منظر؛

اب الف اور جیم، ہم دونوں آپ سے مخاطب ہیں۔ تبرک میں ملنے والے چاول کچھ ٹھنڈے تھے، لیکن بہت ذائقے دار بنے ہوئے تھے۔ ایک آرٹسٹ صاحب جو پچھلے دنوں ملے تھے ان کا دیا جانے والا وزیٹنگ کارڈ دو حصوں میں تقسیم کیا، اس کو درمیان سے موڑ کر دو چمچ بنائے، لنگر والے چاولوں کا تھیلا کھولا، وہ کھائے جا رہے ہیں اور باتیں ہو رہی ہیں۔

چاول کھا کر ہم مقام \”ب\” کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments