ایک اور طرح کی تبلیغ


صبح کے وقت شہروں میں تقریباً ہر گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ کسی بچے کے سکول کی ایک کاپی گم ہو گئی ہوتی ہے اور کسی کے جوتے پالش نہیں ہوئے ہوتے۔ صاحب نے کام پر جانا ہوتا ہے اور جلدی میں بغیر استری کیے شرٹ پہن لیتا ہے کہ اس کے اوپر ویسے بھی کوٹ ہی تو پہننا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں (اصل میں بے وقت ہی) دروازے پر کوئی آ کر ملنا چاہے تو دل چاہتا ہے کہ اپنے ہی بال نوچ لیں۔ اسی طرح ایک صبح جب سات بجے دروازے پر کسی نے گھنٹی بجائی تو دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کاش کوئی ایسا شخص ہو جو میرا وقت ضائع کیے بغیر مجھے جلدی سے فارغ کردے۔

اس وقت میں ناشتہ کر رہا تھا۔ چنانچہ منہ ٹشو پیپر صاف کرتا ہوا گھنٹی کا جواب دینے کے لئے باہر نکلا۔ ”یا اللہ! یہ تو یک نہ شد۔ دس ترو تازہ چہرے، زیادہ تر نوجوان، کئی ایک نے سفید کپڑے پہنے ہوئے میرے دروازے پر کھڑے تھے۔ تین چار نے پتلون اور ٹائیاں بھی پہنی ہوئی تھیں اور باقی سادہ لیکن باوقار لباس میں ملبوس تھے۔ کئی ایک کی چھوٹی بڑی داڑھیاں بھی تھیں۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ وہ جو بھی بیان کرنا چاہیں، جلدی کر لیں کہ میں ہسپتال جانے کے لئے وقت پر تیار ہوسکوں۔

ایک لمبی سانس لے کر میں نے پوچھا کہ میں ان کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اگر ان کو چائے کی دعوت دیتا ہوں اور وہ قبول کرتے ہیں تو میری صبح تو غتر بود ہوہ ی گئی۔ میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ اس وفد کے ایک بڑے نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ساتھ والی کالونی کے رہائشی ہیں اور ہمارے مشترکہ مسجد کی جماعت میں شریک ہوتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ان کے اگلے رٹے ہوئے جملے دہرا رہا تھا کہ کہ عین اسی وقت میں چونک پڑا۔

احمد صاحب (وفد کے سربراہ نے اپنا تعارف اسی نام سے کروایا تھا) کہنے لگے کہ“ ہم آج اپنی معمول کی ہفتہ وار مہم پر نکلے ہیں۔ آج کے لئے انہوں نے ہمارے سیکٹر کی چند گلیوں کو منتخب کیا ہوا ہے اور اس علاقے میں پورا دن گزاریں گے ”۔ میں دل ہی دل میں کسمسایا کہ لو جی صبح کی چاہیے ساتھ ساتھ دوپہر کا کھانا بھی سر آن پڑنے والا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا ہم آپ کی اجازت لینے آئے ہیں کہ نہ صرف آپ کے گھر کے سامنے بلکہ پورے سیکٹر کی گلیاں صاف کر لیں۔ ہمیں صرف آپ کی اجازت درکار ہے۔ ہم جھاڑو، ویکیوم کلیینر اور وائیپر وغیرہ ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ہم نہ صرف آپ کے اور آپ کے ہمسائیوں کے گیٹ کے باہر تمام رستہ چھڑکاو کر کے، صاف کریں گے بلکہ نالیوں اور گٹروں کو بھی کھول دیں گے۔“

میں اپنی حیرت کو سنبھال ہی رہا تھا کہ انہوں نے ایک اور گرز مارا۔ ”صاحب ہم نے اپنی چائے اور کھانے کا بندوبست کر لیا ہے اور ہمارا ایک دوسرا وفد اسی مقصد کے لئے تشکیل دیا گیا ہے کہ وہ ہمارے لئے وقت پر کھانا پینا فراہم کرے۔“ یہ کہہ کر انہوں نے اجازت چاہی۔ تاہم جاتے جاتے ایک دوسرے صاحب نے آگے بڑھ کر نہایت ہی معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ ان کو ہمارے طویل اوقات کار معلوم ہیں لیکن اگر فرصت ہو تو عشا کی نماز کے بعد مسجد میں چند منٹ کے لئے ٹھہر جائیں تو ہمارے ساتھی چند منٹ میں اپنا مدعا بیان کر لیں گے۔

”یہ کہہ کر وہ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر رخصت ہو گئے، مجھے ششدر چھوڑ کر۔ میں ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اور سر بے یقینی سے جھٹکتا ہوا باور چی خانے میں بقیہ ناشتہ زہر مار کرنے لگ گیا۔ بیگم نے پوچھا دروازے پر کون تھا اور آپ کن سوچوں میں گم ہو گئے ہیں۔ میں نے چونک کر کہا کچھ نہیں، بس وہ چند لوگ دین کی کچھ باتیں بتانے آئے تھے اور عشا کی نماز کے بعد مسجد میں بیان کے لئے بلایا ہے۔ میں دل میں سوچا کہ اگر صحیح بات کروں تو وہ فوراً کہے گی کہ“ قربان جاؤں آپ کی سادگی کے۔ یکم اپریل تو ابھی دور ہے اور تمہیں وقت سے پہلے بے وقوف بنا لیا ہے۔ ”

مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب کپڑے تبدیل کیے، کب بچوں کو سکول چھوڑا اور کب اپنے ہسپتال پہنچا۔ ہسپتال کی ایک الگ دنیا ہے جس میں اگرچہ باقی سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن صبح کے واقعے نے کئی بار سر اٹھا کر سوچنے پر مجبور کیا۔ وارڈ راو نڈ، اوپی ڈی اور اور ایمرجنسی آپریشن تھیٹر کے گھن چکر میں دو بج ہی گئے۔ یہ اچھا تھا کہ بیگم نے بچوں کو سکول سے لانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ ہسپتال سے سیدھا گھر روانہ ہوا۔ گلی میں داخل ہوا تو حیرت کا جھٹکا لگا۔

تمام گلی کی سڑک شفاف اور چمک رہی بھی گویا کسی وی آئی پی کی آمد آمد ہو۔ حتیٰ کہ وہ نالیاں جو برسوں سے جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئی تھیں، کھلی ہوئی اور صاف ستھری تھیں۔ سڑک پر خلاف معمول کوئی گندے جوہڑ بھی نہ تھے۔ وہ ڈسٹ بن جو اندر باہر سے تعفن پھیلا تھا اب نئے نکور واشنگ مشین کی طرح چمک رہا تھا۔ خالی دیواروں پر زنانہ مردانہ بیماریوں کے اشتہارات اور بے ہودہ قسم کے جمللے مٹے ہوئے تھے۔ سب سے بڑی بات کہ دو چار پلاٹ تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑے ہوتے تھے اور گندگی کے ڈھیڑ بنے ہوتے تھے، اب باقاعدہ کسی ٹریکٹر کی بلیڈ سے بالکل ہموار کیے گئے تھے گویا کسی شادی کی دعوت کی تیاری ہو رہی ہو۔

ایک پلاٹ میں تو باقاعدہ ٹینس کا اور دوسرے میں بیڈ منٹن کے نیٹ لگے ہوئے تھے جن پر لڑکے باری باری کھیل رہے تھے۔ بیگم بھی تھوڑی دیر میں بچوں کو لے کر گھر پہنچ گئیں۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی تو بوکھلائی ہوئی لگ رہی تھی۔ مجھ سے آتے ہی پوچھا کہ ہماری گلی میں کیا ہونے والا ہے۔ پھر کسی کی شادی ہے کیا؟ یعنی رات کی نیند حرام ہوگی۔ میں نے تھوڑا سنبھل کر صبح کے واقعے کے بارے میں بتایا تو تو بہت خوش ہوئیں اور مجھ سے کہا کہ تم چھٹی لے کر ان کے ساتھ کام کرلیتے۔ بہر حال اب عشا کی نماز کے لئے ضرور مسجد جانا اور مجھے فون کر کے بتانا کہ اگر کوئی کھانا بھجوانا ہو تو میں جلدی جلدی تیار کرلوں گی۔

سردیوں کے دن ویسے بھی چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے شام کو کلینک میں بھی زیادہ مریض نہیں تھے۔ میں آخری مریض کو رخصت کرتے ہی کلینک بند کر کے اپنے سیکٹر کی مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ خوش قسمتی سے میں عین جماعت سے چند لمحے ہی پہلے پہنچا۔ میں نے بقیہ ہمسائیوں کو چہ مگوئیاں کرنے پایا لیکن عموماً لوگ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ فرض نماز اور دعاکے بعد امام صاحب نے اعلان کیا کہ ہماری مسجد میں چند مہمانوں کا ایک وفد آیا ہوا ہے اور صرف چند منٹ ہمارے ساتھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ انہوں نے کسی قسم کا کھانا پینا قبول نہیں کیا ہے۔ ان کا عذر یہ ہے کہ پہلے ہی ایک دوسرا وفد اس کی ذمہ داری لے چکا ہے۔ ویسے تمام نمازیوں کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔

نماز ختم ہوئی۔ بیان سننے کے لئے لوگ دائرے میں بیٹھے اور وفد کے سربراہ کے بیان سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوئے۔ انہوں کی اللہ کی تحمید سے آاغاز کیا اور مختصراً بتایا کہ چونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس لئے اگر ہم یہاں ایک دوسرے کی مدد کر کے اسی دنیا کو جنت بنالیں تو یقینااًخروی دنیا میں ہمیں اس کا بہترین پھل ملے گا۔ یہ عبادات صرف چند معمولات تک محدود نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا سارا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جیسے کہ کاروبار میں ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے جنت حرام ہوجاتی ہے۔

اس وقت ملک میں آٹے کی قلت ہے۔ اگر آپ میں سے کسی کے پاس آٹے کا ذخیرہ ہو تو وہ مناسب منافع پر فوری طور پر مارکیٹ میں میسر کردیں۔ دو تین احادیث خدمت خلق کے متعلق بیان کیں۔ ”صفائی چونکہ نصف ایمان ہے، اس لئے اپنے گھر سے گند نکال کر گلی میں نہ پھینکیں۔ ہم نے پوری گلی میں دس بڑے بڑے ڈسٹ بن رکھوادئے ہیں، جن میں گھریلو گند پھینکا جاسکتا ہے۔ آج ہم نے دو تین گھروں کے گیٹس کے باہر چھوٹے چھوٹے پختہ نالے بنوالئے ہیں تاکہ صبح کے وقت آپ کے ڈرائیورگاڑی دھوئیں تو پانی پوری گلی کو سیراب نہ کرے۔

براہ کرم اپنے ملازمین کو بھی کہیں اور خود بھی پانی کے ضیاع سے گریز کریں۔ مسجد میں بھی وضوخانے میں پانی کا کافی ضیاع ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے آج ان کی ساری ٹوٹیاں بدل دی ہیں اور ان سے تبھی پانی نکلتا ہے جب آپ ہاتھ آگے کرتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ کوئی صاحب حیثیت نمازی ہاتھ سکھانے والے چھوٹے چھوٹے تولیے وضوخانے میں رکھوا لیں تو وضو کے بعد سب لوگ اپنے ہاتھ اور چہرے خشک کرسکیں گے۔ یہ تمام تولئے ایک بالٹی میں ڈال کر دھونے کے بعد استعمال کے قابل بن سکتے ہیں۔

گیلے پاؤں سے قالین بھی بچ جائے گا۔ ویسے بھی حدیٹ کے مطابق آپ دریا کے کنارے بھی وضو کر رہے ہوں تو اصراف نہیں کرنا چاہیے۔“ اس تمام بیان کے درمیان مکمل سناٹا تھا۔ بیان ختم ہوا تو ایک صاحب اٹھے کہ ان کے پاس گودام میں ساٹھ ہزار بوری آٹا پڑا ہوا ہے اور وہ کل مارکیٹ میں حکومت کے مقرر کردہ ریٹ پر نکالیں گے۔ ایک اور صاحب نے اٹھ کر تولیے اور ان کو رکھنے کے لئے پلاسٹک کی نہ صرف ٹوکریاں رکھنے کی آفر کردی بلکہ ان تولیوں کی صفائی کا بھی ذمہ لیا۔ دو تین نمازیوں نے اٹھ کر عہد کیا کہ آئندہ سے ان کے ڈرائیور یا خود گلی میں گاڑی نہیں دھوئیں گے۔ اس پر وفد کے سربراہ نے مختصر سی اختتامی دعا کرنی چاہی تو تمام نمازیوں نے مطالبہ کیا کہ چندایک دوسری آیات اور احادیث بھی سنادیں۔ بعض نے تو جب یہ درخواست کی تو ان کے لہجے میں رقت سی آ گئی۔

اس پر ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ہ سب پر ایک دوسرے کے حقوق ہیں اور جب تک ہم وہ پورے نہیں کریں گے ہماری ساری عبادات رائیگاں جانے کا خطرہ ہے۔ اس نوجوان ے حکایات اور احادیث سے ایسے حوالے دیے کہ میری تو عقل ٹھکانے لگ گئی۔ جیسے وہ واقعہ کہ جب ایک شخص کو معلوم ہوا کہ اس کا پڑوسی بھوک کے مارے مردہ مرغی پکانے کے لئے لے جا رہا تھا تو ہمسائے نے اپنی ساری جمع پونجی جو حج کے لئے مختص کی تھی، لا کر ہمسائے کے حوالے کردی۔

اس کے ساتھ ہی اس نوجوان نے نہایت معصومیت سے سوال کیا کہ کیا حاضرین میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو دوسرے تیسرے حج کی تیاری کر رہا ہے۔ جبکہ کرونا اور لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سے گھرانوں پر نہایت سخت وقت گزررہا ہے۔ اس پر اچانک چار افراد کھڑے ہو گئے کہ وہ اپنا اگلا حج منسوخ کر رہے ہیں اوروہ سارا سرمایہ ان غریبوں کی مالی مدد کے لئے دے رہے ہیں۔ تاہم وفد کے ارکان نے کسی قسم کے رقم لینے سے انکار کر دیا اور ان مخئیر حٖضرات سے درخواست کی کہ وہ خود ہی کوئی کمیٹی بنالیں اور یہ رقم اپنی ہی نگرانی میں خرچ کریں۔

ایک نوجوان نے تجویز پیش کی وہ سارے نمازی جو مسجد کے باہر یا بازار میں پیشہ ور گداگروں کو خیرات دیتے ہیں، اس کی بجائے یہ رقم خواہ کتنی بھی معمولی کیوں نہ ہو ایک کوزے میں ڈالتے جائیں اور پھر سارے محلے والے مل کر اس رقم سے اجتماعی طور پر کسی بیوہ کے مستقل روزگار کی فکر کریں یا کسی یتیم کو کاروبار شروع کرنے کے لئے قرضہ حسنہ کے طور پر دے دیں۔ غرض ساری مسجد میں اپنی مدد آپ کا ایک ماحول بن گیا۔ ہر کوئی پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اس وفد کا اگلا پروگرام کیا ہے؟

جواب میں احمد صاحب نے بتایا کہ چند ماہ بعد فلاں شہر میں ان کا سالانہ اجتماع ہونے والا ہے جس میں بیس سے پچیس لاکھ لوگوں کی شرکت متوقع ہے۔ رجسٹریشن فیس سو روپے پے اور اس طرح سے تقریباً بیس کروڑ روپے جمع ہوں گے۔ اس رقم کو پورے ملک میں ایک تحصیل منتخب کر کے وہاں گلیاں پختہ کرنے، سیوریج اور صاف پانی کا بندوبست اور سکول اور ہسپتال قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ گویا ہر سال ایک تحصیل میں مکمل فلاحی خدمات کا احاطہ کیا جائے گا۔

مجھے معلوم ہے کہ آپ سوچیں گے کہ اب میری آنکھ کھل جائے گی۔ نہیں نہیں۔ ہر گز نہیں۔ کیا مجھے دن میں خواب دیکھنے کا حق نہیں۔ اسی لئے تو دوست مجھے شیخ چلی کہتے ہیں اور میں ان کو کہتا ہوں کہ چاند پر جانے سے برسوں قبل اییک ناول نگار نے اسی موضوع پر ایک ناول لکھا تھا۔ اس لئے میرا موقف ہے کہ مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے ایسے ہی شیخ چلی درکار ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).