یہ جنس کے بھوکے ہیں صنف کے نہیں!


بات نکلے گی تو دور تلک جائیں گی۔ لیکن دور تک بات جانی اب ضروری بھی ہے۔ روزانہ آپ خبرنامہ دیکھیں گے تو دو خبریں ضرور سنیں گے۔ ایک خواتین سے زیادتی کی اور دوسری مہنگائی کی۔ مہنگائی کا مسئلہ تو ہمیشہ کا ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر جس طرح معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہے یہ مسئلہ زیادہ پرانا نہیں ہے بلکہ کچھ ہی سالوں میں یہ معاملات سنگین حد تک بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کا ہر باعزت گھرانا اس مسئلے کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہے اوراس طرح کے بڑھتے واقعات نے خواتین کی ذہنی صحت پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک بینک کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مرد بینک مینجر ایک خاتون جو خود اس بینک میں ملازمت کررہی تھی ان کے ساتھ نازیبا حرکت کرتے دیکھے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ویڈیو وائرل ہو گئی اور ہراساں کرنے والا شخص کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو گیا اور پولیس نے گرفتار بھی کر لیا۔ حسب معمول، حسب عادت اور حسب غیرت پاکستانی عوام نے اس حرکت کے پیچھے بھی خاتون کو ہی قصور وار قرار دے دیا۔ کوئی کی بورڈ مجاہد کہتا ہے کہ خاتون ہی آمادہ محسوس ہوئی ورنہ وہ پلٹ کر شور کرتی یا طمانچہ مارتی تو کوئی منھ کا مجاہد کہتا ہے کہ خاتون کی جگہ صرف گھر کی چار دیواری ہے اگر یہ باہر نکلیں گی تو ان کے ساتھ یہ سب ہوگا۔ یہ انفرادی بیانیہ نہیں بلکہ پاکستانی اکثریتی عوام کا فکری نظریہ بھی ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ ڈھٹائی ہے اور کچھ نہیں مطلب مرد کچھ بھی کریں قصور وار عورت ہی ہوں گی ۔ تف ہے اس تاویل پر۔

ویسے ایک لمحے کے لئے یہ مان لیا جائے کہ ہر زیادتی کی وجہ خواتین کا باہر نکلنا یا نامناسب لباس ہے۔ چلیے کچھ دیر کے لئے اس بے تکی فکر کو فرض کرلیتے ہیں مگر 8 ماہ کی بچی کا کیا قصور جو گھر میں تھی جسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور تو اور اس دفن ہوئی مردہ خاتون کا کیا قصور جسے مرنے کے بعد دفنا دیا گیا۔ عورتیں تو دور کجا ان 6، 8 سال کے لڑکوں کا کیا قصور جنھیں نشانہ بنانے والے ان کے ہی مرد استاد نکلیں۔ زیادتی کی وجہ نہ لباس میں ہے نہ جسم کے ابھار میں ہے یہ وجہ ذہن کی نجس خانوں میں ہے جو ذہنی طور پر بیمار ذہنوں میں پلتی ہے جنھیں کسی بھی طرح اپنی ہوس پوری کرنی ہوتی ہے۔ یہ ہوس وہ ذہنی بیمار شخص کسی طور بھی پوری کرے گا کیونکہ بھوکا کھانا ڈھونڈے گا یہ نہیں سودیکھے گا کہ حرام ہے یا حلال، پاک ہے یا صاف۔ ان وحشی درندوں کو جنس مطلوب ہوتی ہے صنف نہیں۔ اورتو اور یہ درندے کبھی کبھی اتنے وحشی بن جاتے کہ درندے بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔

6 سال کی لڑکی ہو یا پھر 8 ماہ کی لڑکی ان درندوں کو اس سے کچھ غرض نہیں ہوتا کیونکہ وہ فکری طور پر بیمار ہوتا ہے اور ذہنی طور پر بھی، اور بیماری جب کنٹرول میں نہ آئے تو پھر ہیوی ڈوز دینی پڑھتی ہے۔ اگر ہیوی ڈوز نہیں ملیں گی تو بیمار شخص مزید بیماری پھیلائے گا جو معاشرے کو مزیدگھٹن زدہ بنادے گا۔ یاد رکھئیے کچھ ذہنی بیمار سامنے آ جاتے ہیں کیونکہ وہ کھلم کھلا ظلم کرتے ہیں اور مظلوم بھی بولنے کی ہمت کرتا ہے مگر معاشرہ میں بے شمار ذہنی اور فکری ظالم چھپ کر گھناونے کام کرتے ہیں اور مظلوم میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو ظلم سمجھ سکیں۔ ہر باعزت شخص اور بالخصوص والدین سے گزارش ہے کہ اپنے اور اپنے بچوں کے تعلق کو مزید مضبوط کریں بلکہ بچوں سے دوستی کریں تاکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ہر واقعہ کو آپ سے شیئر کریں تاکہ ظالم اپنی ظلمت کے آغاز میں ہی بے نقاب ہو جائے اور معاشرے میں دھتکارا جائے۔ کوشش کیجئیے اپنے آس پاس گہری نظر رکھئیے اور ہر ظالم کو فوری بے نقاب کیجئیے تاکہ ظالم کو مزید موقع فراہم نہ ہوں اور مزید معصوم مظلوم بننے سے بچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).